سائفر کیس: عمران خان اور جج کے درمیان شدید تلخ کلامی، شاہ محمود نے فائل ہوا میں اچھال دی
جن وکلا پر ہمیں اعتماد ہی نہیں وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے، جج صاحب یہ کیا مذاق چل رہا ہے؟ عمران خان کا جج سے مکالمہ
اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران عمران خان اور جج کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، شاہ محمود نے سرکاری فائل ہوا میں اچھال دی جبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہاہے کہ جن وکلا پر ہمیں اعتماد ہی نہیں وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے، جج صاحب یہ کیا مذاق چل رہا ہے؟۔
اڈیالہ جیل میں خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات نے سائفر کیس کی سماعت کی جس دوران عمران خان کے وکلا کی عدم موجودگی کے باعث کیس میں گواہوں کے بیانات پر جرح شروع نہ ہوسکی۔عدالت کے احکامات پر عمران خان اور شاہ محمود کو سرکار کی طرف سے دیے گئے وکلا عدالت میں پیش ہوئے جس پر دونوں نے سرکار کی طرف سے دیے گئے وکلا صفائی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔کیس کی سماعت کے دوران عمران خان اور خصوصی عدالت کے جج کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی اور شاہ محمود نے سرکار کی طرف سے دیے گئے وکیل صفائی کی کیس فائل ہوا میں اچھال دی۔
عمران خان نے جج سے مکالمہ کیا کہ جن وکلا پر ہمیں اعتماد ہی نہیں وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے، جج صاحب یہ کیا مذاق چل رہا ہے؟ میں تین ماہ سیکہہ رہا ہوں کہ سماعت سے پہلے مجھے وکلا سے ملنے کی اجازت دی جائے، بارہا درخواست کے باوجود وکلا سے مشاورت نہیں کرنے دی جاتی، مشاورت نہیں کرنے دی جائے گی تو کیس کیسے چلے گا۔بانی پی ٹی آئی کے مؤقف پر جج نے کہا کہ جتنا آپ کو ریلیف دیا جا سکتا تھا میں نے دیا، وزرش کیلیے سائیکل کی فراہمی یا پھر وکلا سے ملاقات، آپ کی درخواست منظورکی، میرے ریکارڈ پر 75 درخواستیں ہیں جو ملاقاتوں سے متعلق ہیں،
اس پر عمران خان نے کہا کہ آپ نے تو ملاقات کا آرڈر کیا لیکن ملاقات کرائی نہیں گئی، اوپن ٹرائل میں کسی کو جیل آنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ادھر بھی سرکار ادھر بھی سرکار یہ مذاق ہو رہا ہے،
اس پر جج نے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب، اگر آپ خود جرح کرنا چاہتے ہیں تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں، تین مرتبہ تاریخ دی مگر آپ کے وکلا نے آنے کی زحمت نہیں کی۔شاہ محمود نے کہا کہ یہ سرکاری ڈرامہ نہیں چلے گا، اس طرح سے ٹرائل کی کیا ساکھ رہ جائے گی، جج نے جواب دیاکہ میرے لیے آسان تھا کہ میں ڈیفنس کا حق ختم کر دیتا، میں نے پھر بھی اسٹیٹ ڈیفنس کا حق دیا، اس کسٹڈی کی وجہ سے مجھے یہاں جیل آنا پڑ رہا ہے،
وہ بھی تو کسی ماں کے بچے ہیں جن کے کیس جوڈیشل کمپلیکس میں چھوڑ کر آیا ہوں، میں آرڈر کر کر کے تھک گیا ہوں مگر آپ کے وکیل نہیں آتے، سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا تھا اگرٹرائل میں رکاوٹیں آتی ہیں تو عدالت ضمانت کینسل کر سکتی ہے۔شاہ محمود نے جج ابو الحسنات کی بات پر کہا کہ سپریم کورٹ کے ضمانت کے فیصلے کا بھی مذاق اڑایا گیا، جیل سے باہر نکلتے ہی ایک اور کیس میں اٹھا لیا گیا۔
جج نے استفسار کیا کہ شاہ صاحب اس کیس کو لٹکانے کا کیا فائدہ ہے؟ شاہ محمود نے کہا کہ جج صاحب جیل میں کوئی خوشی سے نہیں رہتا، میں اپنا وکیل پیش کرنا چاہتا ہوں سرکاری وکیلوں پر اعتبار نہیں، اس پر جج نے کہا کہ آپ اپنے وکیل کو بلا لیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پراسیکیوشن کے نامزد کردہ وکیلوں سے ڈیفنس کروایا جا رہا ہے، اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہوچکا۔