رضا علی عابدی
کسی اخبار میں سرخی لگی۔ سرکار نے بھنگ کی کاشت کی اجازت دے دی ہے۔ لوگ خوب ہنسے۔ طرح طرح کے مضحکہ خیز تبصرے کئے۔ میں ان کے ہنسنے پر ہنسا۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ بھنگ کا پودا جو ہمارے ندی نالوں میں اُگ آتا ہے ، اپنے اندر دوا کی تاثیر رکھتا ہے اور وہ بھی غیر معمولی۔طرح طرح کے دماغی اور نفسیاتی امراض میں بھنگ کی بوٹی حیرت انگیز شفا دیتی ہے۔ بہت سے ملکوں میں اس کی کاشت اور استعمال پر پابندی لگی ہوئی ہے لیکن ہر طرح کی آزمائشوں کے بعد طے پایا ہے کہ اس کے استعمال میں نقصان کم اور فائدے زیادہ ہیں۔
ہم بھی ان پرانے منظروں سے واقف تھے جب ہمارے ہندو دوست ہولی دیوالی کے موقع پر بھنگ گھوٹ کر پیتے تھے یا بھنگ کی مٹھائی کھاتے تھے اور اس کے بعد کی ہڑبونگ بھی یاد رہے گی۔ پھر ہم نے مزاروں ، درگاہوں اور تکیوں پر لوگوں کو بھنگ کا دھواں ناک میں چڑھاتے دیکھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس بوٹی کا روحانی وجدان سے گہرا تعلق ہے۔ اس کے استعمال کے بعد انسان کسی دوسری ہی دنیا کے سفر پر نکل جاتا ہے۔اس کی تصدیق کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کی سگریٹ یا بیڑی بنا کر پینا اور اسے آزمانا ہر ایک کے بس کاکام نہیں۔مگر اس حقیقت کا تو ہم نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ جن یورپی ملکوں میں مریضوں کو بھنگ کے استعمال کی اجازت دی گئی ان کی قسمت ہی بدل گئی اور لوگوں کو ہزار طرح کی دماغی اور نفسیاتی پریشانیوں سے نجا ت ملی اور لوگوں کو خوشیاں مناتے اور سرشار ہوتے دیکھا تو ہم نے بھی بھنگ کے بارے میں اپنی رائے بدل دی۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کتنی ہی دوائیں زہر سے بنتی ہیں۔ لیبارٹری میں تیار ہوں یا جڑی بوٹیوں سے بنی ہوں، ان گنت دواؤں میں ہر طرح کے زہریلے مادے استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہومیوپیتھی میں بھی جو بظاہر میٹھی گولیاں ہوتی ہیں ان کی تیاری میں زہر کا استعما ل عام ہے یہ الگ بات ہے کہ سوئی کی نوک کے برابر ہوتا ہوگا۔لیکن ایلو پیتھی میںکئی موثر دوائیں زہر سے تیار ہوتی ہیں۔یہ بات بھی کم لوگوں کی علم میں ہوگی کہ کئی دوائیں سانپ کے زہر سے بنائی جاتی ہیں۔ دنیا میں کتنے ہی لوگ سانپ کا زہر نکال کر روزی کماتے ہیں۔ ہم نے ٹیلی وژن پر ایک صاحب کو دیکھا جنہیں نہ صرف سانپ پالنے کا بلکہ ان سے خودکو ڈسوانے کا شوق ہے۔ ان کے آس پاس بھانت بھانت کے سانپ رینگتے رہتے ہیں اور وہ انہیں پکڑ پکڑ کر اور ان کا منہ چیر کر ان کی زہر کی تھیلی کو شیشیوں میں نچوڑتے رہتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے دولت کماتے ہیں۔ سانپ جتنا خطرناک ہو، اس کا زہر اتنا ہی مہنگا ہوتا ہے۔ اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جو لوگ اس طرح سانپ سے خود کو ڈسواتے رہتے ہیں ان کے جسم اس زہر کے عادی ہوجاتے ہیں اور ان پر یہ زہر کام نہیں کرتا۔ہم سب جانتے ہیں کہ زہر کو زہر مارتا ہے یا دوسرے لفظوںمیں زہر کا تریاق بھی زہر ہی ہوتا ہے۔
دوا کے نام پر زہر دینے کا یہ موضوع کہاں سے ذہن میں آیا، اس کا قصہ بھی دل چسپ ہے۔ جب ایک طرف یہ خبر چھپی کہ حکومت نے بھنگ کی کاشت کی اجازت دے دی ہے، وہیں خبروں کے عالمی ذرائع میں اس خبر نے بھی دھوم مچائی کہ شہد کی مکھی کے ڈنک میں جو زہر ہوتا ہے وہ چھاتی کے سرطان کا موثر علاج ثابت ہوا ہے۔ اس سلسلے میں آسٹریلیا میں بہت کام ہورہا تھا۔ آخر سائنس دانوں نے بہت وثوق سے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو سب سے زیادہ نشانہ بنانے والے سینے کے کینسر کو شہد کی مکھی کا زہر اس خوبی سے ہلاک کرتا ہے کہ خون میں تیرنے والے دوسرے عنا صر بالکل محفوظ رہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ابھی ان کی تحقیق پوری نہیں ہوئی ہے اور کچھ اور ریسرچ کی ضرورت ہے لیکن اب تک جتنی چھا ن بین ہوئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینے کے سرطان کا علاج جلد ہی ممکن ہوجائے گا۔
مگر اس موقع پر ہمیں ایک اور خبر یاد آرہی ہے۔ وہ یہ کہ دنیامیں شہد کی مکھیاں تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔ماہرین بتا تے ہیں کہ کئی اسباب ہیں جن کے نتیجے میں شہد کی مکھیوں کی نسل متاثر ہورہی ہے۔ ان میں سب سے پہلے دنیا کا ماحول اور ہماری فضا ہے جس کو ہم نے بری طرح آلودہ کردیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ آج کا انسان فضا میں بیسیوں قسم کی جو برقی لہریں دوڑا رہا ہے، ہرایک کے ہاتھ میں جو موبائل فون ہے، جو برقیاتی سگنل دنیا کے چپے چپے پر پہنچائے جارہے ہیں انہوں نے شہد کی مکھیوں کی زندگی کے نظام میں بڑا خلل ڈال دیا ہے۔ ان مکھیوں کو قدرت نے ایک عجب صلاحیت دی ہے ، وہ اپنے چھتّوں سے نکل کر پھولوں کی تلاش میں دور دور تک جاتی ہیں، اس کے بعد یہ نظام انہیں واپسی کی راہ دکھا تا ہے اور وہ بھٹکے بغیر اپنے چھتّے تک واپس آجاتی ہیں۔لیکن فضا میں دوڑنے والی یہ جدید برقی لہریں راہ دکھا نے والے نظام میں خلل ڈال کر شہد کی مکھیوںکو بھٹکا دیتی ہیں جس کے بعد یہ تصور کرنا مشکل نہیںکہ مکھیوں کا کیا حشر ہوتا ہے۔
سائنس داں ایک اور بات بھی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں جس وقت انسان خلق ہوا تھا اسی وقت شہد کی مکھیاں بھی پیدا ہوئی تھیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ دونوں پر بُر ا وقت بھی ساتھ ساتھ پڑے۔ چلئے مانا کہ شہد کی مکھی کی سب سے بڑی دشمن جدید برقی لہریں ہیں۔لیکن انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟
یہ بتانے کی ضرورت ہے کیا؟
بشکریہ روزنامہ جنگ