دیوسائی کے رنگ

لفظ دیوسائی دو الفاظ کا مرکب ہے دیو اور سائی یعنی سایہ

تحریر : طاہر نعیم ملک

 

                                                                                                  دیوسائی کے رنگ

عارف امین اور غلام رسول کی تصویری کتاب دیوسائی کے رنگ دیکھنے اور پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ ھم ان علاقوں کو اتنی کم توجہ کیوں دیتے چلے آئے ہیں۔

لفظ دیوسائی دو الفاظ کا مرکب ہے دیو اور سائی یعنی سایہ۔ آج سے سو سال قبل اس علاقے میں کم ہی انسانوں کا گزر ہوا کرتا تھا چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع دیوسائی کا شمار دنیا کا تبت کے بعد سطح مرتفع پر بلند ترین علاقوں میں ہوتا ہے دیوسائی کا کل رقبہ تین ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل ھے۔

دیوسائی جنت نظیر ھے ۔

اس کی پراسرار خاموشی صدیوں پر محیط ھے دیوسائی اسکردو سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے اس کی سرحدیں قراقرم اور کوہ ہمالیہ سے ملتی ہیں

۔دیوسائی سال کے آٹھ مہینے برف سے ڈھکا رھتا ھے ۔جون کے وسط میں راستے کھلتے ہیں ۔بادل اور دھوپ موسم سرما میں آنکھ مچولی کرتے ہیں بعض اوقات بادل زمین کے اتنے قریب دکھائی دیتے ہیں کہ آپ بادلوں کو چھو سکتے ہیں۔

 

۔ذرائع آمدو رفت کی ترقی اور سوشل میڈیا کی رسائی کی وجہ سے دیوسائی میں آنے والے ٹورسٹ حضرات کی تعداد کافی بڑھ گئی ھے صرف گزشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں سے بارہ لاکھ لوگ ھنزہ اور شمالی علاقہ جات سیر و سیاحت کی غرض سے گئے ۔

سڑکوں کا بہتر ہونا اور سوشل میڈیا نے ان دور افتادہ علاقوں کی عوام میں جہاں آگاہی پیدا کی وھاں دوسرے مسائل نے بھی جنم لیا۔

عارف امین اور غلام رسول نے اپنی کتاب میں اس خوبصورت وادی پہاڑی سلسلے اس کے پھول رنگ اور بدلتے موسموں کی عالمی معیار کی تصویر کشی کی ۔

عارف امین کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کے اس علاقے میں جانے سے وھاں آلودگی پھیل رھی ہے آب وہوا اور جنگلی حیات کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہیں ۔

مثال کے طور پر براؤن ریچھ کی نسل دنیا میں نایاب شمار کی جاتی ہے اور یہ نسل دیوسائی میں بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رھی ھے ۔اکثر لوگ اس کے شکار کی غرض سے جاتے ہیں ۔اسی طرح سیاحوں کے پھیلائے ہوئے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں

۔اکٹر لوگ چیونگ گم چبانے کے بعد جب پھینکتے ہیں تو جنگلی پرندے اسے کھانے کی کوشش میں زندگی سے ھاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔گلگت بلتستان کی کی حکومت کو اس ضمن میں آگاھی مہم چلانے کی ضرورت ہے

۔ایسے قوانین کی بھی ضرورت ھے جس سے ماحول اور آب وہوا آلودہ نہ ہوسکے جی بی حکومت ہو یا وفاقی حکومت دراصل ماحولیات ھماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ۔

ایسے میں غیر سرکاری تنظیموں کا اھم کردار ھے جیسے کہ ھمالین وائلڈ لائف اور ایڈونچر فاؤنڈیشن سے منسلک ڈاکٹر انیس الرحمن اور بریگیڈیئر ر اکرم اچھا کام کررھے ھیں ۔

کتاب دیوسائی کے رنگ اینگرو فوڈز کے تعاون سے شائع ہوئی اس سے قبل یہ پاکستان کے پرندوں پر بھی کتاب شائع کرچکے ہیں

۔اینگرو فوڈز مبارکباد کا مستحق ہے کہ پاکستان کے مختلف ثقافتی رنگ کو کتاب کے ذریعے اجاگر کرکے پاکستان کا روشن چہرہ دنیا میں متعارف کروا رھا ھے۔

ایڈونچر فاؤنڈیشناینگرو فوڈزدیوسائیھمالین وائلڈ لائف
Comments (0)
Add Comment