تحریر: سارا افضل
دو سیشنز ، چین کے سیاسی کیلنڈر کے اہم ترین اجلاس کیا پیغام دیتے ہیں ؟
مارچ کے پہلے ہفتے میں چین کے ” دو اجلاس ” منعقد ہو رہے ہیں ۔ ملک کے سیاسی کیلنڈر میں "دو سیشن” بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ "لیان حوئے” یا "ٹو سیشنز ” سے مراد نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) اورچائنیز پیپلز پولیٹیکل کنسلٹیٹوکانفرنس (سی پی پی سی سی) کےسالانہ اجلاس ہیں۔ انہیں بالترتیب چین کی اعلی مقننہ اور اعلی سیاسی مشاورتی ادارے کے طور پربھیجاناجاتا ہے۔ چین کی سیاسی زندگی میں ان دونوں اداروں کا الگ الگ لیکن بنیادی کردار ہے۔ ان سیشنز کے دوران مرکزی حکومت ایک ورک رپورٹ پیش کرتی ہےجس میں عمومی طور پر ماضی کی کامیابیوں کا جائزہ لیا جائتا ہےنیز رواں سال اور اس کے بعد کے ترقیاتی اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ ہزاروں قومی قانون ساز اور سیاسی مشیر اس رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں اور اس پر تبادلہ خیال کرتے ہیں ، ساتھ ہی قومی مقننہ، سپریم کورٹ اور اعلیٰ حکام کی رپورٹس پر بھی تبادلہ خیال کیا جاتا ہے
یہ اجلاس جس طرح کام کرتے ہیں اگر اس کے میکانزم کو سمجھ لیا جائے تو چین کے طرزِ حکومت کی بنیاد میں موجود ” جمہوری اقدار ” کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ چینی آئین کےمطابق تمام اختیارات عوام کے پاس ہیں۔ وہ ادارے جن کے ذریعے لوگ ریاستی طاقت کا استعمال کرتےہیں وہ نیشنل پیپلز کانگریس اور مقامی عوامی کانگریس ہیں جو ہرسطح پر ہیں۔ نیشنل پیپلز کانگریس ریاستی طاقت کا سب سے بڑاادارہ ہے۔ این پی سی کوعوامی جمہوریہ چین کے صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرنے کا اختیارحاصل ہے۔
ریاستی مقننہ کے لحاظ سے، اس کے پاس قوانین بنانے، چین کے آئین میں ترمیم کرنے اور آئین کے نفاذکی نگرانی کرنے کا اختیار ہے۔ نیشنل پیپلز کانگریس ان نائبین پر مشتمل ہےجوقانون کے مطابق۳۵انتخابی اکائیوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اناکائیوں میں صوبوں، خوداختیارعلاقوں،مرکزی حکومت کی براہِ راست ماتحتی میں آنے والی بلدیات،پیپلزلبریشن آرمی کی فوجی کانگریس، ہانگ کانگ خصوصی انتظامی علاقے اور مکاؤ خصوصی انتظامی علاقے کی ڈپٹی الیکشن کونسلز اور تائیوان کے ہم وطنوں کی مشاورتی انتخابی کونسل شامل ہیں۔ چھوٹی آبادی والے صوبوں اور خود اختیار علاقوں سے نائبین کی تعداد۱۵سےکم نہیں ہوسکتی ہے جب کہ انتہائی چھوٹی آبادی والی اقلیتی قومیتوں کااپناکم ازکم ایک نائب ہونا لازمی ہے۔
این پی سی کے نمائندوں کا انتخاب بالواسطہ ووٹوں سے ہوتا ہے۔ لیکن کمیونٹی کی سطح پر عوامی کانگریس کے نظام کی بنیاد پر، انتخابات براہ راست ہوتے ہیں۔ آئین کے مطابق عوامی جمہوریہ چین کےتمام شہریجو۱۸سال کی عمر تک پہنچ چکے ہیں انہیں ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں کھڑے ہونے کا حق حاصل ہے۔ ہرنائب پانچ سال کے لیے خدمات سر انجام دیتا ہے۔
مغرب ،جمہوریت کا اپناایک تصور دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر ملک خواہ اس کے زمینی حقائق کچھ بھی ہوں وہ اسی "مغربی طرزِ جمہوریت ” پر عمل کرے وگرنہ ان کی دانست میں وہ ” جمہوری ملک” نہیں ہوگا ۔ تاہم این پی سی کی حرکیات اور افعال مغربی سیاسی نظاموں کی قانون ساز طاقتوں میں عام طور پر دیکھے جانے والے کاموں سے مختلف ہیں۔ این پی سی سال میں صرف ایک بار عام طور پر مارچ میں اپنا اجلاس منعقدکرتی ہے۔ جب اجلاس منعقد ہو رہے ہوتے ہیں تو مرکزی حکومت کی طرف سے وزیراعظم کی جانب سے حکومت کی ورکنگ رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ یہ رپورٹ گزشتہ قانون سازسال کےلیےحکومتی اقدامات پر ایک احتسابی بیان ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ رپورٹ وہ دستاویزبھی ہے جس کے ذریعے حکومت آنے والے سال کے اہداف کو پیش کرتی ہےاوران کے حصول کی ذمہ داری لیتی ہے۔اس طرح چینی عوام حکومتی پالیسیز کےارتقا اور کیے جانے والے فیصلوں کی نگرانی کر سکتے ہیں۔
سی پی سی کی قیادت میں، سی پی پی سی سی، این پی سی، اور حکومت قوانین اور ان کے چارٹر کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں، اپنے کام کی کوششوں کو مربوط کرتےہیں، اپنے کام انجام دیتےہیں،اورایک دوسرےکی تکمیل کرتے ہیں۔ ان سیاسی ڈھانچوں کے ذریعے ہی حکومت کی انتظامیہ اورنگرانی میں عوام کی شرکت کی ضمانت دی جاتی ہے۔ چونکہ این پی سی اور سی پی پی سی سی کی قومی کمیٹی کےسالانہ اجلاس عملی طور پر ایک ساتھ ہوتے ہیں،لہذاچینی سیاسی کیلنڈر میں "دواجلاس” ایک اہم ترین وقت ہوتا ہے۔
جمہوریت ، عوام کی حکومت جو عوام کے لیے ہو۔ جمہوریت کی اس تعریف پر ناصرف چین کا طرزِ حکومت پورا اترتا ہے بلکہ نتائج بھی اسے ثابت کرتے ہیں۔اس سب سے بڑے اجلاس میں کہ جس کی صدارت خود ملک کا سربراہ کرتا ہے پورے ملک کے ہر کونے سے عوامی نمائندے شامل ہوتے ہیں اور انفرادی طور پر اپنی کارکردگی کی رپورٹ ، اپنے اہداف ، آنے والے سال کے لیے ان کی تجاویز اور مرکزی حکومت سے انہیں کیا معاونت درکار ہے اسے پیش کرتے ہیں ۔ بڑے سے بڑا شہر اور چھوٹی سے چھوٹی کاونٹی اس اجلاس میں اپنے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں یعنی عوام سے آئے ہوئے لوگ عوام کے لیے کام کرتے ہیں ۔ یہ اسی طرزِ حکومت کا نتیجہ ہے کہ سی پی سی کےتقریبا 70 سالہ دورِ حکمرانی میں ،چین بنیادی طور پر دیہی اور پسماندہ ملک سے دنیاکی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے، اس کی فی کس آمدن کا گوشوارہ تیزی سے ترقی یافتہ ممالک کے برابر آگیا ہے اور کئی شعبوں میں اس نے دنیا کی بڑی معیشتوں اور صنعتوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنی جگہ سب سے اوپر بنا لی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو دنیا کے سامنے ہیں اور ان میں کوئی ہیرا پھیری ممکن نہیں ہے رہی بات خود چینی عوام کی تو عوام کی حکومت نے عوام کے لیے کام کرتے ہوئے اپنےتمامدیہیعلاقوں میں بسنے والوں کو بھی غربت کی حد سے باہر نکال کر ایک مطمئن اور باسہولت زندگی فراہم کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کی جانب سے اپنی حکومتوں پر اعتماد کے حوالے سے ورلڈ انڈیکس میں بھی چین سرِ فہرست ہے۔ یہ جمہوریت کی یعنی عوام کی جیت ہے۔