خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے: وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ
خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے فیصلہ سنادیا۔
وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 ء کی دفعہ 2 (3)این کو خلاف شریعت قرار دے دیا ،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شریعت کسی کو نامزد ہو کر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی
وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے سیکشن 3 اور سیکشن 7 کو بھی خلافِ شریعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیکشن 7 کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کرکے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا، وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے مرد یا عورت خود کو بائیولاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیرشرعی ہوگا۔
شریعت کورٹ نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 ایف بھی کالعدم قرار دے دی ،فیصلے کے مطابق ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیر شرعی ہیں اور ان دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومت خواجہ سراؤں کو تمام حقوق دینے کی پابند ہے، اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ جنس کا تعلق انسان کی بائیو لاجیکل جنس سے ہوتا ہے۔ نماز، روزہ اور حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے، انسان کی جنس کا تعین اس کے احساسات سے نہیں کیا جاسکتا۔
وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں نمٹا دیں۔