خشک سالی اور ڈزرٹیفکیشن ایک اہم مسئلہ ہے۔ وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان
پاکستان خشک سالی کا سامنا کرنے والے23 ممالک کی فہرست میں شامل ہے
خشک سالی کوئی نیا رجحان نہیں ہے جس سے ہم واقف نہ ہوں بلکہ یہ ہمیشہ سے فطرت اور انسانی تجربے کا حصہ رہا ہے، تاہم بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، درجہ حرارت میں اضافہ اور دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں میں نمایاں تبدیلی کی وجہ سے اس کے اثرات میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گرمی کی طویل لہروں اور بارشوں میں تاخیر، پانی کی ناقص تقسیم کی وجہ سے ہم پورے ملک میں پانی کے بحران اور خشک ندیوں کو دیکھتے ہیں، سندھ اور جنوبی پنجاب کے پہلے ہی پانی کی قلت والے علاقوں میں بڑھتی ہوئی گرمی اور پانی کی کمی سے مقامی لوگ اور مویشی شدید متاثر ہیں جو بہت بڑا چیلنج ہے۔
اسلام آباد (نیوزپلس) وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں خشک سالی اور ڈزرٹیفکیشن ایک اہم مسئلہ ہے، پاکستان خشک سالی کا سامنا کرنے والے23 ممالک کی فہرست میں شامل ہے،2025 تک خشک سالی دنیا کی تین چوتھائی آبادی کو متاثر کر سکتی ہے، یہ پاکستان کو قحط سالی سے بچانے کا وقت ہے جس کے لئے ہمیں کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے ڈزرٹیفکیشن اور قحط سالی سے نمٹنے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے دئیے گئے پیغام میں کہنا تھا کہ 2025 تک خشک سالی دنیا کی تین چوتھائی آبادی کو متاثر کر سکتی ہے، پاکستان بھی اس کے شکنجے میں آجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ صحرازدگی ایک عالمی بحران ہے جو ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، ڈزرٹیفکیشن اور قحط سالی کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، زمین کی زرخیزی میں کمی، حیاتیاتی تنوع میں کمی اور زمین کی پیداواری صلاحیت میں کمی جیسے بحران پیدا ہوتے ہیں۔
وفاقی وزیر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ خشک سالی کوئی نیا رجحان نہیں ہے جس سے ہم واقف نہ ہوں بلکہ یہ ہمیشہ سے فطرت اور انسانی تجربے کا حصہ رہا ہے، تاہم بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، درجہ حرارت میں اضافہ اور دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں میں نمایاں تبدیلی کی وجہ سے اس کے اثرات میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گرمی کی طویل لہروں اور بارشوں میں تاخیر، پانی کی ناقص تقسیم کی وجہ سے ہم پورے ملک میں پانی کے بحران اور خشک ندیوں کو دیکھتے ہیں، سندھ اور جنوبی پنجاب کے پہلے ہی پانی کی قلت والے علاقوں میں بڑھتی ہوئی گرمی اور پانی کی کمی سے مقامی لوگ اور مویشی شدید متاثر ہیں جو بہت بڑا چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اقدامات نہ اٹھائے تو پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا، ہمیں ابھی سے اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان نے اپنے گرین انیشیٹو پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت 10 لاکھ ہیکٹر رقبے پر3.29 ارب پودے لگائے جائیں گے، فی الحال ہم نے1.5 ارب پودوں کا ہدف حاصل کیا ہے، جس کے نتیجے میں دیہی علاقے جو ڈزرٹیفکیشن اور خشک سالی کا شکار ہیں وہاں250,000 ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ اور وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے زیرنگرانی سندھ طاس کو بحال کرنے کے لیے منسوبہ کام کر رہا ہے۔ پاکستان نے ڈزرٹیفکیشن، زرخیزی میں کمی اور خشک سالی جیسے اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے ”فطرت پر مبنی حل ”کے تھیم کے تحت ایکو سسٹم کی بحالی کے لئے اقدام بھی شروع کیا ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ ”اس ورلڈ ڈیزرٹیفیکیشن اور خشک سالی کے دن پر، ہمیں خشک سالی سے بچنے کے لیے کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو موسمیاتی ایمرجنسی میں صف اول میں کھڑے ہیں۔ ہم خشک سالی کو نہیں روک سکتے لیکن ہم اپنے پانی کو محفوظ رکھنے کی تیاری کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک 2030 تک کے اہداف حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور مذکورہ کوششیں ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے جاری رہیںگی۔