تحریر : سارہ افضل ،بیجنگ
رواں سال چین پاکستان سفارتی تعلقات کے قیام کی 70برس مکمل ہو رہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے بین الاقوامی تجارت و سرمایہ کاری فورم 2021کے دوران چھنگ داو کے میئر اور پاکستانی سفیر معین الحق نے فیصل آباد اور چھنگ داو کو جڑواں شہر قرار دینے کے قصد نامے پر دستخط کیے ۔ اس کا مقصد دونوں شہروں کے درمیان وابستگی کو بڑھانا اور مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کو مزید وسیع اور مضبوط کرنا ہے۔ اپنے اپنے خطوں میں اہم علاقائی معاشی اور تجارتی مرکز ہونے کے ناطے ، جڑواں شہروں کا درجہ دینا فیصل آباد اور چھنگ داو کے درمیان موجودہ تعاون کو بڑھانے اور دو طرفہ سرمایہ کاری ، تجارت ، سیاحت اور تعلیم کے روابط کو بڑھا کر نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ یہ چین -پاکستان کے درمیان ترقی کے نئے در وا کرے گا ،نئے میدانوں اور نئے شعبوں میں تحقیق و سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا ۔
دونوں شہر اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے باعث اپنے اپنے ملک میں بے حد اہمیت کے حامل ہیں اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
فیصل آباد ، پاکستان کے صوبہ پنجاب کےشمال مشرقی حصے میں صوبائی دارالحکومت لاہور سے 120 کلومیٹر دور مغرب کی سمت صنعت و تجارت کے لحاظ سے بھی اور آبادی کے لحاظ سے بھی ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ زرعی یونیورسٹی ،نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی (NIAB)نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی اینڈ جنرل انجینئرنگ (NIBG) انسٹیٹیوٹ آف انجینئرینگ اینڈ فرٹیلائزر ریسرچ اور فاریسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی وجہ سے اسے” سائنس سٹی "بھی کہا جاتا ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سےپاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کی یارن مارکیٹ ایشیا کی سب سے بڑی یارن مارکیٹ ہے۔ضلع بھر میں تقریبا 400 سے زائد بڑے صنعتی کارخانے کام کر رہے ہیںجن میں زیادہ تر سوتی کپڑے کے کارخانے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں دو درجن کے قریب چھوٹے بڑے کارخانے تھے جن کی تعداد 1948 میں 43 ہو گئی۔ اب صنعتی یونٹس کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔کپڑے کی صنعت کے علاوہ آٹے، پٹ سن، بناسپتی گھی، خوردنی تیل، مشروبات، شکر، پلائی ووڈ، چپ بورڈ، مصنوعی کھاد، ہوزری، نشاستہ، گلو کوز، آرٹ سلک، ٹیکسٹائل مشینری، زرعی آلات، قالین بافی اور گھڑی سازی کے بہت سے کارخانے ہیں اور صابن سازی کی صنعت بھی خاصی عروج پر ہے۔
اگر ایک طرف فیصل آباد پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف چین کے مشرقی صوبے شن دونگ کا شہر ، چھنگ داو چین کے سب سے اہم ساحلی شہروں میں سے ایک ہے۔ اس علاقے میں انسانی تمدن کی تاریخ 6000 سال پرانی ہے۔ چین کے مشہور بحرِ زرد کے ساحل پر واقع ، یہ شہر دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو میں ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ایشیا کو یورپ کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے متعدد اجلاسوں کی میزبانی بھی کر چکا ہے 2018میں ، اٹھارویں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس بھی چھنگ داو میں ہی ہوا تھا۔
عالمی مالیاتی مراکز انڈیکس2020میں ، چھنگ داو 47 ویں نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں شامل دیگر چینی شہر شنگھائی ، ہانگ کانگ ، بیجنگ ، شن زن ، گوانگ چو ، چھنگ دو ، نانجنگ ، شی آن ، تیان جن ، ہانگجو ، دالیان اور ووہان ہیں ۔ 2007 میں شائع ہونے والی چینی شہروں کی برانڈ ویلیو رپورٹ میں اس شہر کو چین کے دس بہترین شہروں کی فہرست میں شامل کیا گیا جب کہ 2009 میں چینی ادارہ برائے شہری مسابقت نے چھنگ داو کو طرزِ زندگی کے اعتبار سے با سہولت اور اعلی معیار کا حامل شہر قرار دیا ۔
1984 میں چینی حکومت نے چھنگ داو کی ایک ڈسٹرکٹ کو ایک سپیشل اکنامک اینڈ ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ زون (ایس ای ٹی ڈی زیڈ) قرار دیا ۔ اس ڈسٹرکٹ کی ترقی کے ساتھ ہی ، پورے شہر میں ثانوی اورتیسرے درجے کی صنعتوں نے غیر معمولی ترقی کے سفر کا آغاز کیا ۔ صوبے کی ایک اہم تجارتی بندرگاہ کی حیثیت سے ، چھنگ داو غیر ملکی سرمایہ کاری اور بین الاقوامی تجارت کے باعث عالمی سطح پر بے حد نمایاں حیثیت حاصل کر رہا ہے۔ جنوبی کوریا اور جاپان نے خاص طور پر اس شہر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ جنوبی کوریا کے تقریبا ایک لاکھ شہری یہاں مقیم ہیں۔اس شہر نے ترقی کا سفر بہت تیزی سے طے کیا ،2006 میں 18.9 فیصد کی سالانہ شرح نمو کے ساتھ ، اس شہر کا جی ڈی پی 42.3 بلین تک پہنچ گیا ، جو صوبہ شن دونگ میں پہلے نمبر پر جب کہ چین کے دیگر 20بڑے شہروں میںدسویں نمبر پر ہے۔ چھنگ داو کی بندرگاہ اکیسویں ویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ کا ایک حصہ ہے۔یہ ساحلی شہر بہت تیزی کے ساتھ علاقائی معاشی اور تجارتی تعاون کے مرکز کے طور پر ابھرا ہے ۔ چھنگ داو کی بہت سی مقامی کمپنیاں پاکستان میں الیکٹرانکس ، زراعت ، اور خدمات کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ یہ شہر گھریلو برقی مصنوعات بنانے والی عالمی شہرت یافتہ کمپنی ” ہائیر ” اور "ہائی سینس” کا شہر ہے۔پرائمری سیکٹر کی صنعتوں کے لحاظ سے ، چھنگ داو کے پاس 50,000 ایکڑ قابل کاشت اراضی ہے،ایک شاندار ساحل اور آبی حیات سے بھرپور سمندر ہے جس میں مچھلی ، کیکڑے اور دوسرے سمندری وسائل کا انمول ذخیرہ موجود ہے۔چھنگ داو کی ہوا کی توانائی سے بنائی جانے والی بجلی کی پیداوار خطے میں سب سے زیادہ ہے ۔
جڑواں شہر وں کا یہ تصور جنگِ عظیم دوم کے بعد پیش کیا گیا تاکہ مختلف ثقافتوں ، تہذیبوں سے واقفیت حاصل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے اور مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مضبوط کیا جا سکے ۔ جڑواں قرار دیئے جانے والے شہروں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپس میں افرادی قوت کا تبادلہ کیا جائے ،ان کی تربیت کی جائے، تعلیمی وظائف اور طلبہ کے باہمی تبادلوں کے پروگرامز کے ذریعے تعلیمی ، تحقیقی ، معاشی و معاشرتی میدان میں بہتری لائی جائے ۔
کاروباری معاملات میں بھی جڑواں شہر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور عام ممالک یا علاقوں کی نسبت ایک دوسرے کے لیے زیادہ سہولیات اور مواقع فراہم کرتے ہیں جوکہ کسی ایک شہر یا ملک کے لیے نہیں بلکہ دونوں کے لیے بے حد سود مند ہے۔ اس سے عوام کے لیے روزگار اور تعلیم کی سہولیات میں اضافہ ہوتا ہے اور معیارِ زندگی میں بہتری آتی ہے ۔ ووکیشنل ٹریننگ اور تکنیکی مضامین میں گریجویشن کے لیے طلبہ کو خصوصی تربیتی پروگرامز میں ترجیحاً شامل کیا جاتا ہے , انتظامی امور سے وابستہ حکام کو مینیو فیکچرنگ اور پبلک ایڈمنسٹریشن کی تربیت دے کر ان شعبوں کو مضبوط کرنا مجموعی طور پر معاشرتی انتظام و انصرام میں بہتری کا باعث بنتا ہے ۔ صرف یہی نہیں ثقات و سیاحت کے ذریعے بھی عوام ایک دوسرے سے قریبی رابطے میں آتے ہیں اور ہم آہنگی بڑھتی ہے۔ فیصل آباد اور چھنگ داو کے درمیان تعلیمی ، کاروباری ، ثقافتی روابط مضبوط ہونے اور افرادی قوت کی تربیت یقیناً ایک مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی اور دونوں شہر جو اپنے وسائل اور صلاحیتوں کے باعث دنیا میں ایک پہچان رکھتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ترقی کی نئی منازل طے کریں گے۔