اسلام آباد (نیوز پلس) سانحہ اے پی ایس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دھماکوں اور شدید فائرنگ میں سکیورٹی گارڈز جمود کا شکار تھے، دہشتگرد سکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت داخل ہوئے، سکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا۔
جوڈیشل انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہا گیا غداری سے سکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشتگردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا، اپنا ہی خون غداری کر جائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں، کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کر سکتی بالخصوص جب دشمن اندر سے ہو، سانحہ اے پی ایس نے فوج کی کامیابیوں کو پس پشت ڈالا۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کی جانب سے سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ عدالت نے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی بھی ہدایت کی۔
آرمی پبلک سکول کے شہدا کے والدین عدالت میں پیش ہوئے اور کہا سپریم کورٹ اوپر والوں کو پکڑے، نیچے سب ٹھیک ہو جائے گا، ہم چاہتے ہیں کسی اور کے بچوں کیساتھ ایسا نہ ہو، منصوبہ بندی کیساتھ بچوں کو ایک ہی ہال میں جمع کیا گیا، یہ واقعہ دہشتگردی نہیں، بلکہ ٹارگٹ کلنگ تھا۔
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں انکوائری کمیشن رپورٹ پر جواب جمع کرایا اور کہا واقعہ میں ذمہ دار افراد کیخلاف ہر ممکن کارروائی کی جا رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب ! اوپر سے کارروائی کا آغاز کریں، ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچ سکیں، انکوائری کمیشن رپورٹ، حکومتی جواب کی کاپی والدین کو فراہم کریں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا یہ پوری قوم کا دکھ ہے۔
سپریم کورٹ نے امان اللہ کنرانی کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ بڑے لوگوں کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی، ہمارے ملک کا المیہ رہا ہر بڑے سانحہ کا ذمہ دار چھوٹے عملے کو ٹھہرا کر فارغ کر دیا، بڑے لوگوں کیخلاف کارروائی نہیں کی جاتی، جب عوام محفوظ نہیں تو اتنا بڑا ملک اور نظام کیوں چلا رہے ہیں ؟ انکوائری کمیشن کی رپورٹ اور اس پر وفاق کا جواب پبلک کیا جائے، حکومت کمیشن رپورٹ پر لائحہ عمل بنائے۔
سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک سے متعلق جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں ہوئی اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو ہم چلائیں گے، حکومت کو ایکشن لینا چاہیے تاکہ ایسے واقعات نہ ہوں، وہ لوگ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے انہوں نے حاصل کیا۔
جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا آپ چاہتے ہیں سکیورٹی میں غفلت کے ذمہ داروں کو بھی سزا ملے؟
جسٹس گلزار احمد نے کہا اٹارنی جنرل سن لیں، یہ متاثرین کیا چاہتے ہیں، ملک کا المیہ ہے کہ حادثے کے بعد صرف چھوٹے اہلکاروں پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے، اٹارنی جنرل صاحب اب اس روایت کو ختم کرنا ہو گا، آپ کو سزا اوپر سے شروع کرنا ہو گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ سکیورٹی اداروں کے پاس اطلاعات تو ہونی چاہیے تھیں، جب عوام محفوظ نہیں تو بڑی سیکیورٹی کیوں رکھی جائے، جو سکیورٹی کے ذمہ دارتھے ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، اتنا بڑا سکیورٹی لیپس کیسے ہوا؟
سپریم کورٹ نے اے پی ایس سانحے سے متعلق بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور اس رپورٹ پر اٹارنی جنرل کے کمنٹس کو پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ نے امان اللہ کنرانی کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے سانحہ اے پی ایس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کر دی۔