بھارت خطے میں انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے: نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ

بھارت خطے میں انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے: نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ

اقوام متحدہ

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہندوتوا سے متاثر انتہاپسندوں سمیت تمام دہشت گردوں کا بلا تفریق مقابلہ کرے۔ پاکستان معاشی طور پر دنیا کے سب سے کم مربوط خطوں میں واقع ہے، پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خطے مل کر ترقی کرتے ہیں، اس لئے پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔ انہوں نے تنازعہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کلید ہے۔ افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش پاکستان میں دہشت گرد حملے کر رہے ہیں، ترقی کیلئے امن لازم ہے، افغانستان کے امن سے خطے کا امن جڑا ہوا ہے۔  اسلاموفوبیا کی وجہ سے مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔

جمعہ کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیر اعظم نے نشاندہی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند اور فاشسٹ گروپوں کے بڑھتے ہوئے خطرے سے ہندوستانی مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسل کشی کا خطرہ ہے۔ پاکستان میں معاشی استحکام کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، انہوں نے ریاستی دہشت گردی کی مخالفت کرنے اور اس کی بنیادی وجوہات جیسے غربت، ناانصافی اور غیر ملکی قبضے کو دور کرنے کے علاوہ حقیقی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے ممتاز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ترقی کا دارومدار امن پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے سب سے کم معاشی طور پر مربوط خطے میں سے ایک ہے اور اس کا خیال ہے کہ خطہ مل کر ترقی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور نتیجہ خیز تعلقات کا خواہاں ہے۔

بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے، افغانستان میں امن پاکستان کے لئے ناگزیر ہے،

پاکستان کی پہلی ترجیح افغانستان سے اور اندرون ملک تمام دہشت گردی کو روکنا اور اس کا مقابلہ کرنا ہے،ہمیں بلا تفریق تمام دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہئے، ہمیں ریاستی دہشت گردی کی مخالفت کرنے کی بھی ضرورت ہے، اسلامو فوبیا نے نائن الیون کے بعد وبائی شکل اختیار کر لی ہے، باہمی احترام، مذہبی علامات، صحیفوں اور مقدس ہستیوں کے تقدس کو یقینی بنایا جائے، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں اضافہ سے اس کی ساکھ اور قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔

وزیراعظم نے مسئلہ کشمیر، موسمیاتی تبدیلی، اسلاموفوبیا، فلسطین، افغانستان، پاکستان کے معاشی استحکام ، اقوام متحدہ اصلاحات سمیت علاقائی اور بین الاقوامی امور کا جامع انداز میں احاطہ کیا۔وزیراعظم نے علاقائی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کا دارومدار امن پر ہے،

پاکستان معاشی طور پر دنیا کے سب سے کم مربوط خطوں میں واقع ہے، پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خطے مل کر ترقی کرتے ہیں، اس لئے پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔ انہوں نے تنازعہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کلید ہے۔

انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے، بھارت نے سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کیا ہے جوجموں و کشمیر کے حتمی تصفیہ کا فیصلہ اس کے عوام اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے کرنے کا متقاضی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہندوستان نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے غیر قانونی تسلط کو برقرار رکھنے کیلئے 9 لاکھ فوجی تعینات کئے ہیں، اس مقصد کے لئے بھارت نے توسیع شدہ لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کر رکھا ہے، کشمیر کے تمام حقیقی لیڈروں کو جیلوں میں ڈال دیا ،پرامن احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبانا، جعلی “مقابلوں” اور نام نہاد “گھیراؤ اور تلاشی کی کارروائیوں” میں معصوم کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کا سہارا لیا گیا اور اجتماعی سزائیں دی گئیں، پورے کے پورے دیہات کو تباہ کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر تک رسائی، جس کا مطالبہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق اور ایک درجن سے زائد خصوصی نمائندوں نے کیا تھا، کو نئی دہلی نے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کی کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئے، اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ فار انڈیا اینڈ پاکستان کو مزید تقویت دی جانی چاہئے۔ عالمی طاقتیں نئی دہلی کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ پاکستان کی جانب سے سٹرٹیجک اور روایتی ہتھیاروں پر باہمی تحمل کی پیشکش کو قبول کرے۔

 

 

 

بشکریہ: اے پی پی

ریڈیو پاکستان

اقوام متحدہانوارالحق کاکڑنیویارک
Comments (0)
Add Comment