گزشتہ روز ایک ویڈیو سوشل میڈیا گروپس میں شیئر ہوئی جس میںبچے کا تڑپنا دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کوشش کی کہ جان سکوںیہ ویڈیو کس علاقے کی ہے مگر ناکام رہی ۔ویڈیو سے بظاہر تو جو نظر آرہا تھا وہ بچیکی حوالگی کیس میں معزز عدالت نے گواہوں اور ثبوتوںکو مدنظر رکھتے ہوئے بچے کو باپ کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے اس ویڈیو میں جس انداز سے بچہ اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ نے کیلئے بلک بلک کر رو،سفاک باپ کی گرفت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پائوں ماررہا تھااور ماں بچے کی تڑپ پر بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی ،وہیں باپ جلاد کا روپ دھارے زبردستی بچے کو بیدردی سے اٹھاکر لے جا رہاتھا ۔اس23سیکنڈ کی ویڈیو کے مناظر نے دیکھنے والوں کو ہلا کر رکھ دیا۔لیکن مجال ہے کہ اس شخص کو اپنے بچے کی تڑپ پر ذرا بھی ترس آیا ہو ۔باپ کا روپ جو میں نے دیکھا ہے اس میں تو اپنی اولاد کی خوشی کے لئے والد اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی لٹا دیتا ہے خود دھوپ میں مزدوری کرتا ہے اور بچوں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے اف تک نہیں کرتا ۔ لیکن اس واقعہ میں باپ باپ نہیں بلکہ انسانی درندگی اور سفاکی کی بدترین جھلک دیکھائی دی ۔ عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا وکیل نے بھی کیس جیت لیا اور بچہ باپ کے حوالے کر دیا مگر جو بات قابل غور ہے وہ ماں اور بچے کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے ۔ ماں کی محبت ،ماں کی ممتا کی تپش،ماں کے آنچل کاتحفظ ،ماں کی گود کا سکون، نہ کوئی جج کا فیصلہ دے سکتا ہے اور نہ کوئی وکیل۔ باپ چاہ کر بھی ماں کی ممتا کا نعم البدل نہیں ہوسکتا ۔ ویڈیو میں بجھا ہوا دل اور روتی آنکھوں کے ساتھ ماں اپنے بچے کو جاتے دیکھ رہی اور بچہ ماں سے جدا ہونے پر تڑپ رہا ہے یہ سب ماجرا دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں۔اس سارے واقعے میں والدین کا کیا جانا ؟عورت دوسری شادی کر لے گی اسے نیاشوہر اوربچے بھی مل جائیں گے ،باپ کوبھی بیوی اور بچے مل جائیں گے لیکن اس بچے کا کیا قصور جو ماں کی ممتا کے سائے میں پلنے کی بجائے محرومیوں کا شکار ہو جائے گا۔اس بچے کی نفسیات میں رونما ہونے والی محرومیوںکا ذمہ دار کون ہو گا ؟معزز عدالت،وکیل ،معاشرہ ،ماں یا باپ ؟کوئی بھی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گا ۔اس ویڈیو میں باپ نے جس انداز سے بچے کو اٹھایا اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کر رہا تھا اس سے صاف ظاہر تھا بچہ باپ کے رویے سے مطمئن نہیں تھا۔ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت کا پیمانہ کسی کے پاس بھی نہیں ہے جہاں ماں نے نو مہینے بچے کو کوکھ میں پالا ہوتا ہے وہیں باپ بھی بچوں کی خواہشات پوری کرنے اور انھیں آرام دہ زندگی مہیا کرنے کیلئے دن رات ایک کر دیتا ہے لیکن اس دلخراش واقعے کا ذمہ داردونوںہیں آپس میں سمجھوتہ نہ کر کے ایک معصوم بچے کا مستقبل ہمیشہ کیلئے تاریک کر دیا ۔لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اگرماں اور باپ دونوں صبر وتحمل کا مظاہرہ اور انا کو پس پشت ڈال کر بچے کو سامنے رکھیں تو درمیانہ راستہ نکالا جا سکتا ہے ۔دونوں فریق مذاکرات کر کے بچے کے بہتر مستقبل کیلئے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں تاکہ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت دونوں بچے کو میسر آسکیں۔
یہ تو ایک واقعہ ہے جو کیمرہ کی آنکھ نے ویڈیو کی شکل میں محفوظ کر لیا لیکن ہمارے ملک میں ایسے کیسز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔مہنگائی،عدم برداشت اوربے روز گاری کے سبب گھریلو جھگڑوں بڑھنے سے گارڈین کورٹس میں دائر مقدمات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے،ہرسال عدالتوں میں دائر کئے جانے والے دعووں میں تقریبا35سے 40فیصد اضافہ ہورہا ہے ۔ شادی کا نام دماغ میں آتے ہی ایک خوبصورت تصور ذہن میں آتا ہے ایک مضبوط بندھن جس میں دو لوگ اپنی پوری زندگی ایک دوسرے کے نام کر دیتے ہیں۔لیکن المیہ ہے کہ یہ بندھن اتنا ہی ناز ک اور کچا ہوتا ہے ۔ ہماری معاشرتی اقدار میں شادی ایک سمجھوتہ ہے،جو لوگ اپنے شریک حیات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور گھریلو وزندگی کے دیگر امور میں باہمی مشاورت اور رضامندی سے کام لیتے ہیں،ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں،ان کی شادی قائم رہتی ہے اور جو لوگ سمجھوتہ نہیں کرپاتے ان کا یہ مقدس رشتہ ٹوٹ جاتا ۔جو رشتہ بہت چاہوں سے طے کیا جاتا ہے۔ اس کو اتنی آسانی سے کیسے ختم کردیا جا تا ہے ۔زیادہ عرصے پرانی بات نہیں اگر ہم دوتین عشرے پیچھے کی طرف جائیں تو ہمارے معاشرے میں لفظ طلاق ایک گالی سمجھا جاتا تھا پہلے کسی خاندان میں طلا ق کا سانحہ ہوتا تھا تو پورا خاندان دہل جاتا تھااور ہمارے دین میں بھی طلاق کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے لیکن اب خلع لینا ور طلاق دینا عام سی بات ہو گئی ہے ۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ طلاق کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے طلاق کا فعل نہ صرف دو لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیتا ہے بلکہ بہت سی زندگیوں کو ہمیشہ کے لیے محرومیوں کے حوالے کر دیتا ہے اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ عدم برداشت ہے۔ طلاق خانگی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے بچے کبھی نہ ختم ہونے والی احساس کمتری اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔بچپن میں والدین کی شفقت سے محرومی بچوں کو مختلف برائیوں کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے۔ایسے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے۔ عدم تحفظ کاشکار ہوجاتے ہیں،ان کی تعلیمی اورمعاشرتی کارکردگی بری طرح متاثرہوتی ہے ان میں اعتماد اور خودداری کافقدان رہتاہے ۔اپنے لئے ہی نہ صحیح بچوں کے بہتر مستقبل، انکے آرام وسکون کیلئے ماں باپ دونوں کو ایک دوسرے کی خامیوں، کوتاہیوں کو نظر انداز کرکے صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے۔ اپنے اندربرداشت ،صبر ،خلوص ،رشتے بنھانے کا جذبہ اور محبت پیدا کریں ،تا کہ یہ خوب صورت رشتہ تا حیات قائم ودائم رہے بچے کسی بھی آزمائش کا شکار نہ ہوں اور ایسے دلخراش واقعات جنم نہ لے سکیں۔