بحیرہ جنوبی چین میں بڑھتا تناؤ

خاور عباس شاہ

 

بحیرہ جنوبی چین میں بڑھتا تناؤ

 

چائنا کی کامیاب خارجہ پالیسی،اقدصادی و عسکری ترقی اور چین کی بین الااقومی سطح پر انسان دوست پالیسی کے سامنے اس وقت امریکہ اتنا بے بس نظر آتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی حالت یہ ہے کہ جیسے ایک بے چین پرندہ پنچرے میں پھڑپھڑاتا ہو،نومبر میں امریکہ میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کو اپنے اقتدار کی کشتی ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کی نسل پرستی تو انہیں لے ڈوبی مگر مشرق وسطیٰ سے لے کر مخلتف ممالک کے امریکہ اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔

صدر ٹرمپ کو کو اپنی ساکھ بچانے کے لئے شاید ایک ہی راستہ نظر آ رہا ہے وہ چین کے ساتھ کشمکش کا راستہ ہے تاکہ وہ  داخلی معاملات سے توجہ ہٹانے اور کسی طرح چین کو زک پہنچا کر ہیرو بن جائے امریکی سامراج کی تمام تر توجہ دنیا پر اپنے کمزور ہوتے ہوئے تسلط کو بچانے پہ مرکوز ہو چکی ہے اوراب اگر دنیا پر معاشی بالادستی کو بڑا چیلنچ درپیش ہے تو صرف چین سے ہے اسی لئے  چین کا معاشی چیلنج اوردنیا پر گرفت کو کمزور ہوتا دیکھ کر ٹرمپ انتظامیہ کئی ماہ سے چین کے خلاف سخت بیان دیتے نظر آ رہے ہیں عالمی سطح پر چین کے خلاف مہم میں پیش پیش اسسٹینٹ سیکرٹری ڈیوڈ ول نے ایک بیان میں چین کو سمندر یعنی بحیرہ جنوبی چین کی نئی ایسٹ انڈیا کمپنی قرار دیا سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومیپو نے بھی بحیرہ جنوبی چین پر چین کے دعوؤں کو یکسر مسترد کردیا یوں لگ لگ رہا ہے کہ جیسے امریکہ چین کے ساتھ نئی سرد جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کے اشتعال انگیز بیانات سے یہ بات تو ثابت ہو چکی کہ امریکہ چین کو کسی بھی طرح سے غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ اس کی شدت کا ندازہ ”بحیرہ جنوبی چین” میں چین امریکہ کے درمیان تناؤ سے ہوتا ہے جس کو امریکہ خطرناک نہج تک لے جانا چاہتا ہے،

بحیریہ جنوبی کی آڑ میں امریکہ ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتا ہے پہلا یہ کہ چین کو معاشی و سفارتی لحاظ سے عدم استحکام سے دوچار کرنا اور دوسرا ”بحیرہ جنوبی چین” کے وسائل پر تسلط قائم کرنا۔ تیسرا تنازعات کو ہوا دے کر خطے میں اپنے اسلحے کی فروخت کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔تاریخی اعتبار سے بحیرہ جنوبی کے پانیوں اورعلاقوں پر تنازع کافی پرانہ ہے۔ بحیرہ جنوبی میں دو اہم ترین لیکن غیرآباد جزیرے پیراسیلز اورا سپریٹلی ہیں جس کی ملکیت چین کے پاس ہے اور چین ان پر صدیوں سے حق ملیکت کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ ”بحیرہ جنوبی چین” چین کے جنوب میں واقع ایک سمندر ہیاورچین کے ہی صوبہ ہینان کا کئی سو کلو میٹر کا علاقہ بحیرہ جنوبی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور یہ جزیرے تیل و گیس،مچھلی اور قدرتی وسائل سیمالا مال ہیں اس حوالے سے چین کا 1947 کا نقشہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ جس میں یہ جزیرے چین کے کے حصے کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں تاہم نہ تو امریکہ اس خطے میں حصہ دار ہے اور نہ ہی تنازع کا بلواسطہ یا بلا واسطہ فریق نہ ہونے کے باوجود اپنے مفادات کی خاطر جنوبی بحیریہ چین میں عدم استحکام اور جان پوجھ کر متنازع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔تارٰیخی دستاویز تو بتا رہی ہے کہ  بحیریہ جنوبی کا 90 فیصد علاقہ چین کا حصہ ہے جیسا کہ 1947 کے نقشے سے ظاہر ہو رہا ہے اور اس میں کوئی دوارہے نہیں لیکن خطرناک پہلو یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ چین کے حریف ویت نام،فلپائن اور برونائی کو اپنے ساتھ ملا کر اس علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرکے بحیرہ جنوبی کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کا خواہاں ہے اور ان ممالک کو چین کے خلاف بھڑکا رہا ہے اور انکو بحیرہ جنوبی کے معاملے پر اپنی حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی ہے جس طرح تیل سے مالا مال ممالک کویت،لیبیا، عراق،قطراور سعودی عرب میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہاں اس نے کس طرح ہمسائیوں کے خلاف اکسا کر اپنے فوجی اڈے قائم کئیے اور پھر ان ممالک کے وسائل  کس طرح لوٹ رہا ہے اور ان ملکوں میں اس طرح آگ لگائی کہ آج تک وہ آگ لگی ہوئی ہے۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے بحری جہازوں کے ذرہعے اس علاقے میں گشت کرتا رہتا ہے اس طرح چین کا 200 سو میل معاشی زون براہ راست بحری جہازوں کی زد میں آتے ہیں امریکہ کچھ سال پہلے چین کی اجازت کے بغیر اس کے سمندری پانی اور علاقوں میں فوجی مشقیں کرتا رہا ہے اور یوں امریکہ بین الااقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ چینی قوانین کی بھی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ 2001 میں بحیرہ جنوبی چین کے پاس صوبے ہنیان میں امریکی طیارے ای پی -3 اور چینی طیارے فائیٹر8-ایف  کے درمیان فضائی حادثہ ہو چکا ہے جبکہ بحیرہ جنوبی میں 2009 میں امریکی اور چینی آبدوزوں کے مابین بھی حادثہ رونما ہوا۔امریکہ کے ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے چین نے اپنا معاشی زون کی سخت نگرانی کے لئے اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا پڑا۔

چین اور آسیان ممالک جنوبی بحیریہ کے پر امن حل کے لئیلائحہ عمل پر بات چیت کر رہے ہیں۔ چین،فلپائن اور ویتنام کے مابین تناؤ حال ہی میں کچھ ٹھنڈا ہوا ہے لیکن سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومیپو اور ان کے  دیگر سیاسی رفقاء نے مفادات کے حصول کے لئے نہ صرف بحیرہ جنوبی چین میں انتشار پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں بلکہ چین اورآسیان کے رکن ممالک  کے درمیان بھی تعلقات کو بگاڑنے میں بھی بھرپور کوشش کر رہا ہے تاہم چین آسیان ممالک کے ساتھ مل جنوی بحیرہ چین میں استحکام لانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔چین ایک بیدارملک ہے اس میں میں اتنی اہلیت اور داشنمندی موجود ہے کہ وہ بغیر کسی بیرونی مداخلت کے آسیان ممالک کے ساتھ تنازع حل کرسکتا ہے۔تاہم یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ۔۔خطے کی ترقی میں بڑی رکاوٹ امریکہ ہے اس کی مفادات کی پالیسیوں کی وجہ  پر امن خطہ خدانخواسطہ کہیں انتشار کا شکار نہ ہو جائے.

بحیرہ جنوبی چین میں
Comments (0)
Add Comment