انتخابات انشاء اللہ تسلی سے ہوجائیں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ انتخابات کے حوالہ سے بہت سی سی چیزیں آرہی ہیں ، انتخابات انشاء اللہ تسلی سے ہوجائیں گے۔ پاکستان میں جو مسئلے ہورہے ہیں ، ہر چیز میں عدالت مداخلت کرتی ہے۔ پرائیویٹ بینک ٹھک کرکے نکال دیتا ہے اوراگر سرکاری بینک نکالتا ہے تورٹ میں آکر چیلنج کردیتے ہیں ، پاکستان چلے گاکیسے؟ جبکہ عدالت نے نیشنل بینک آف پاکستان میں خروبردکرنے والے پانچ ملازمین کے خلاف تین ماہ کے اندر دوبارہ ریگولرانکوائری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب انکوائری ہو گی توسروس میں نہیں رہ سکتے، گھر بیٹھیں،آرام کریں، بینک ہے اربوں روپے کا اورفراڈ کردوگے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے نیشنل بینک کی جانب سے نکالے گئے5ملازمین محمد ریحان، خالد رشید، سہیل کامران ، محمد رفیق اور غلام مرتضیٰ عباسی کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے بحال کرنے کے خلاف صدر اورسی ای اونیشنل بینک آف پاکستان کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت ضمیر احمد گھمرو، ملک خوشحال خان اورفیصل محمود غنی بطور وکیل پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے مدعا علیحان کے وکیل سے استفار کیا کہ یہ بتادیںکہ جس دن سندھ ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا اس دن اس کا دائرہ اختیار تھا۔ وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ درخواست 2022میں دائر کی گئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس درخواست دائر کی کیااس وقت کیا سٹیچیوٹری رولز موجود نہیں تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں مدعا علیحان کو بحال کریں، آپ کے خردبردکاکیس ہے اگر کیس جیت جائیں گے تو دوبارہ رکھ لیں گے ، یاتوسندھ ہائی کورٹ خودانکوائری کرتی کہ یہ سارے الزامات غلط ہیں ۔ بینک کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ریگولرانکوائری نہیں ہوئی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ دوبارہ انکوائری کریں اوراگرجرم ثابت ہو تو پھر جومرضی کریں۔
محمد ریحان کے وکیل کا کہنا تھا کہ کے میرے مئوکل کے خلاف سپروژن کاالزام تھا، دوسرے پر اصل الزام تھااس کو بحال کردیا۔مدعا علیہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مئوکل کے خلاف کوئی مالی کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کازآف ایکشن ایک بتادیں ہم کیا کریں، دونوں ایک ہی بینک کے وکیل ہیں ہم دوالگ ، الگ آرڈرز جاری نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب انکوائری ہو گی توسروس میں نہیں رہ سکتے، گھر بیٹھیں،آرام کریں، بینک ہے اربوں روپے کا اورفراڈ کردوگے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہم ملازمین کو معطل کردیتے ہیں اور دوبارہ انکوائری کاآرڈر کردیتے ہیں، اگر کیس جیت گئے تو بقایاجات بھی ملک جائیں گے، سارے کیسز میں تین ماہ میںریگولر انکوائری کریں گے ، نوکری سے نہیں نکالیں گے تاہم معطل رہیں گے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ 14دسمبر 2023کو نوٹس جاری ہوئے تھے۔ نیشنل بینک آف پاکستان کے سروس رولز 1973کو19مئی2022کو منسوخ کردیا گیا۔ اس کیس میں ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا، رولز کے معاملہ پر ہائی کورٹ نے کوئی فائنڈنگ نہیں دی اورایک ماہ میں بینک کودوبارہ انکوائری کرنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم دیا کہ بینک بامعنی انکوائری کرے گا جس میں ملازمیں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا مناسب موقع فراہم کیا جائے گا اس کے بعد وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔ عدالت نے حکم میں لکھوایا کہ دونوں پارٹیوں کے اتفاق رائے سے دوبارہ تین ماہ میں ریگولرانکوائری کاحکم دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موجودہ رولز کے تحت انکوائری ہو گی۔ اس پر مدعاعلیحان کے وکیل کی جانب سے اعتراض کیا گیا تاہم چیف جسٹس کا کہنا تھا انکوائری میں بتایا جائے گا کہ یہ الزام ہے اورمدعا علیحان جواب دیں گے اس میں رولز کا کوئی لینا دینا نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریگولرانکوائری ہونے دیں تین ماہ بعد رپورٹ آجائے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے آرڈر کے مطابق تو ایک ماہ کے اندر بھی آپ کو ملازمت سے نکال سکتے ہیں لیکن ہم نے یہ وقت تین ماہ کردیا ہے۔چیف جسٹس نے بینک کے وکلاء سے پوچھا کہ ان ملازمین کا کیا کریں گے تو اس پر بینک وکلا ء کا کہنا تھا کہ ہم ان کو 3 ماہ تک معطل رکھیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بحالی کا حکم تین ماہ تک معطل رہے گا۔ عدالت نے نیشنل بینک کی جانب سے دائر درخواستیں منظور کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کا حکم معطل کردیا۔جبکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے حکومت پاکستان کی جانب سیکرٹری وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز اینڈ ریگولیشنز کے توسط سے حلیمہ زمان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت وفاق کی جانب سے ایڈیشنل ٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس جبکہ جومدعا علیہ کی جانب سے افنان کریم کنڈی بطور وکیل پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی الیکشن کے معاملات آرہے ہیں، ہمارے پاس وقت نہیں ہے ساڑھے گیارہ بجے لارجر بینچ نے سماعت کرنی ہے، ہم کیس ڈسچارج کر دیتے ہیں، کسی کو اعتراض تونہیں۔
اس پر ملک جاوید اقبال وینس کا کہنا تھا کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل کی جانب فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ہمارے اوپر دبائو ہے اس لئے اس فیصلے کو معطل کیا جائے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا دونوں پارٹیاں آئندہ سماعت تک اسٹیٹس کو برقرار رکھیں گے اور کوئی ایک دوسرے کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کتنے دن کے لئے سماعت ملتوی کردیں، دو ہفتے ،3 ہفتے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک ماہ کے لیے سماعت ملتوی کر دیتے ہیں کیونکہ الیکشن کے حوالے سے بہت سے معاملات عدالت آ رہے ہیں ، انتخابات انشااللہ تسلی سے ہو جائیں گے۔عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ تک کے لئے ملتوی کردی۔