فوجی عدالتوں سے سزاوں پر امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے بیانات پر پاکستان کا شدید ردعمل
پاکستان کا عدالتی نظام عالمی معاہدوں کے تحت ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کی ججمنٹ پر فیصلے کیے گئے ہیں،ترجمان دفتر خارجہ
اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے امریکا کو دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی کے فیصلے پاکستانی قوم کرے گی اور کسی بیرونی دباؤ کا اثر نہیں ہونے دے گی، امریکا کی پاکستانی میزائل پروگرام پر لگائی گئی پابندیاں غیر ضروری اور نا انصافی پر مبنی ہیں، یہ اقدامات پاکستان کی دفاعی پوزیشن کو کمزور نہیں کر سکتے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان ماضی میں بھی مختلف پابندیوں کا سامنا کر چکا ہے، مگر ملک نے ہمیشہ اپنی سکیورٹی پر توجہ مرکوز رکھی ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا، پاکستان کے میزائل پروگرام سے امریکا کو کوئی خطرہ نہیں۔
ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ خطے میں میزائل سسٹمز اور جوہری ٹیکنالوجی کی دوڑ کا آغاز بھارت نے کیا ہے اور بڑی طاقتوں کو بھارت کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہیے تاکہ اس دوڑ کو روکنے میں مدد ملے۔
سانحہ نو 9 مئی میں فوجی عدالتوں سے سزا کے معاملے پر امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کو جواب دیتے ہوئے دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کا قانونی نظام عالمی معاہدوں کے مطابق ہے۔
فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلوں پر امریکی، برطانوی اور یورپی یونین بیانات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں دفتر خارجہ کی ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنے تمام بین الاقوامی انسانی حقوق کے فرائض کی تکمیل کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے۔
جاری بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا قانونی نظام بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین، بشمول بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق کے اصولوں کے مطابق ہے۔ یہ اعلی عدالتوں کے ذریعے عدالتی نظرثانی کے مواقع فراہم کرتا اور انسانی حقوق و بنیادی آزادیوں کے فروغ و تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے منظور شدہ قانون اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں کے تحت کیے گئے ہیں۔ پاکستان جمہوریت، انسانی حقوق، اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کے فروغ کے لیے تعمیری اور بامقصد مکالمے پر یقین رکھتا ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم جی ایس پی پلس اسکیم اور بنیادی بین الاقوامی انسانی حقوق کے کنونشنز کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں اور اپنے بین الاقوامی شراکت داروں، بشمول یورپی یونین، کے ساتھ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے رابطے جاری رکھیں گے۔
قبل ازیں امریکا نے 9 مئی کے مقدمات میں فوجی عدالتوں کی جانب سے شہریوں کو سزائیں سنائے جانے پر سخت تشویش کا اظہار کیاتھا۔اس کے علاوہ برطانوی دفتر خارجہ نے بھی فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے پر تنقید کی تھی اور ایک بیان میں کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں شفافیت اور آزادانہ جانچ پڑتال کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے انصاف کے عمل پر سوالات اٹھتے ہیں۔برطانیہ کا موقف ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں اور عوامی حقوق کی پامالی کرتی ہیں۔