الیکشن کا معاملہ فوری توجہ کامتقاضی ہے ، 8فروری کو انتخابات ہونے ہیں اور الیکشن کے حوالہ سے ہر دن اہم ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ادارے کو چلنے ہی نہیں دیتا ہے۔ دوران سماعت ریمارکس
این اے 142ساہیوال، این اے 168بہاولپور اور پی پی 253اورپی پی 254بہاولپور سے چوہدری آصف علی اور محمد عدنان منظور کی جانب سے ریٹرننگ افسران کی جانب سے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلیں خارج
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ8فروری کو پاکستان میں عام انتخابات ہورہے ہیں، الیکشن کے معاملہ پر وکیل نے اسلام آباد کی بجائے لاہور رجسٹری میں درخواست دائر کردی۔
الیکشن کا معاملہ فوری توجہ کامتقاضی ہے ، 8فروری کو انتخابات ہونے ہیں اور الیکشن کے حوالہ سے ہر دن اہم ہے۔ نادرا کے تحت تاریخ پیدائش کااندراج حتمی ہوتا ہے، قانون میں حتمی تاریخ نادار ہے نہ کہ یونین کونسل کا برتھ سرٹیفیکیٹ، اگر ایک شخص بالغ ہوگیا ہے توپھر شناختی کارڈ نہیں بنواتے تویہ جرم ہے، نادراقانون ہم استعمال نہیں کرسکتے، پاکستان میںمسئلہ یہ ہے کہ کوئی ادارے کو چلنے ہی نہیں دیتا ہے۔ قانون ایک مقصد کے لئے بنایاگیا ہے یاتوکہیں کہ نادرا قانون ختم کردیں۔
جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ بیلٹ پیپرز چھپنے کے بعد کیسے الیکشن لڑنے کی اجازت دیں گے، درخواست گزار کو 20جنوری کو ہائی کورٹ کے آرڈر کی کاپی ملی اوروہ 30جنوری کو اپیل دائر کررہے ہیں۔ اس وقت درخواست دائر کرنا وقت کاضیاع ہے، بیلٹ پیپرز چھپ چکے ہیں۔ ملک میں 8فروری کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ عدالت نے این اے 142ساہیوال، این اے 168بہاولپور اور پی پی 253اورپی پی 254بہاولپور سے چوہدری آصف علی اور محمد عدنان منظور کی جانب سے ریٹرننگ افسران کی جانب سے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلیں خارج کردیں۔
جبکہ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وہ سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور مخصوص نشستوں کے کاغذات نامزدگی کی 4کاپیاں عدالت کو فراہم کریں تاکہ فارم سمجھنے میں مدد ملے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے چوہدری آصف علی اور محمدعدنان منظور کی جانب سے این اے 142،این اے168،پی پی 253اورپی پی 254کے ریٹرننگ افسران کی جانب سے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت چوہدری آصف علی کی جانب سے رضا احمد نے پیش ہوکر بتایا کہ وہ ہائی کورٹ کے وکیل ہیں انہیں کیس میںپیش ہوکردلائل دینے کی اجازت دی جائے۔ رضا احمد نے بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست دائر کی ہے۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار چاہتے تو بے بنیاد درخواست لاہور کی بجائے کوئٹہ جا کربھی دائر کردیتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 8فروری کو پاکستان میں جنرل الیکشن ہورہے ہیں، کوئی سننا ہی نہیں چاہتا، آج یکم فروری ہے اور8فروری کو انتخابات ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے لاہور میں درخواست دائر کردی۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ بیلٹ پیپرز چھپنے کے بعد کیسے الیکشن لڑنے کی اجازت دیں گے، 20جنوری کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی مل گئی اور30جنوری کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کررہے ہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے مئوکل سے دوروز قبل ہی درخواست دائر کرنے کی ہدایات ملیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مئوکل تک رسائی نہیں تھی کیا وہ یورپ گئے ہوئے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آتی کس طرح کی وکالت کرتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اس وقت درخواست دائر کرنا وقت کاضیاع ہے، بیلٹ پیپرز چھپ چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ نہ ہی درخواست گزاراورنہ ہی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کمرہ عدالت میںموجود ہیں۔
درخواست گزار گزار کے وکیل ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اورانہوں نے لاہور میں درخواست دائر کی ہے۔ الیکشن معاملات فوری توجہ کے متقاضی ہیں ، یہ الیکشن کا معاملہ ہے اور 8فروری کوانتخابات ہونے جارہے ہیں، الیکشن کے حوالہ سے ہردن اہم ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کہہ رہے ہیں کہ ان کا اپنے مئوکل سے رابطہ نہیں ہوسکتا۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔
جبکہ بینچ نے بہاولپور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 168اورپی پی 253اورپی پی 254پر کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف امیدوار محمد عدنان منظور کی درخواستوں پر سماعت کی۔ امیدوار کی عمر کم تھی جس کی وجہ سے ریٹرننگ افسراور پھر الیکشن ٹربیونل اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے کاغذات نامزدگی مسترد کردئیے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں تاریخ پیدائش کاایشو ہے، میٹرک سرٹیفکیٹ پر تاریخ پیدائش 7مئی 2000ہے اور یونین کونسل سے 2023میں 1997کی تاریخ پیدائش والابرتھ سرٹیفیکیٹ بنوایا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنا شناختی کارڈ دکھائیے۔
وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ شناختی کارڈ نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پھر خداحافظ!۔ چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کی عمر کیا ہے۔
اس پر چیف وکیل کا کہنا تھا کہ 65سال۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 65سال عمر کا تعین کیسے ہوگا۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ برتھ سرٹیفیکیٹ سے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ نادرا کے تحت اندراج حتمی ہوتا ہے، قانون میںحتمی تاریخ نادرا ہے نہ کہ یونین کونسل برتھ سرٹیفکیٹ۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک شخص بالغ ہو گیا ہے توپھر شناختی کارڈ نہیںبنواتے تو یہ جرم ہیم نادراقانون ہم استعمال نہیں کرسکتے، پاکستان میں مسئلہ ہے کہ کوئی ادارے کوچلنے ہی نہیں دیتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار محمد عدنا ن کدھر ہیں۔ اس پر وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ کمرہ عدالت میں موجود نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کی بات ہے وکیل جواب دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون ایک مقصد کے لئے بنایا گیا ہے یاتوکہیں کہ ہم نادرا قانون کو ختم کردیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب ہمیں کیسز بھی تیاری کرنا پڑتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے 4نومبر 2023کوبرتھ سرٹیفکیٹ جاری کروایا جو میٹرک سرٹیفیکیٹ کو سپرسیڈ نہیں کرسکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ 1997والی تاریخ پیدائش کو عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ درست ہے یا غلط ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل کو عدالت کے ساتھ فیئر ہونا چاہیئے، ہم اس آدمی کو جرمانہ کریں گے اگر یہ آکر صیح کاغذات بھی نہیں داخل کرے گا۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کم عمر ہے اوروہ ایک قومی اوردوپنجاب اسمبلی کے حلقوں سے الیکشن لڑنا چاہتا ہے۔
آئین کے مطابق الیکشن لڑنے کے لئے امیدوار کی عمر 25سال ہونی چاہیئے۔ عدالت نے شناختی کارڈکا پوچھا تووہ پیش نہیںکیا گیا، کاغذات نامزدگی میں بیان حلفی پُر نہیں کی گیا۔ وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ انگلش والا بیان حلفی پُر نہیں کیا اوراُردووالا پُرکیا ہے تاہم ایسی کوئی چیز موجود نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بے بنیاد درخواست دائر کرنے پر درخواست گزار کو جرمانہ عائد کرنا تھا تاہم میرے ساتھی جج نے کہا چھوڑ دیں۔ چیف جسٹس نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔ جبکہ چیف جسٹس نے دوران سماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈی جی لاء محمد ارشد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی الیکشن معاملات آرہے ہیں اور آگے سینیٹ الیکشنز بھی ہوں گے اس لئے ہمیں تین، یا چار کاغذات نامزدگی کے سیٹ فراہم کردیں جس میں قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی، سینیٹ اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے کاغذات شامل ہوں۔ اس پر ڈی جی لاء کا کہنا تھا کہ ایک ہی فارم تمام الیکشنز کے لئے ہوتا ہے۔
ڈی جی لاء کا کہنا تھا کہ ہم 15کاغذات نامزدگی کی کاپیاں فراہم کردیں گے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا تین یا چار کاپیاں کافی ہیں۔