رانا تصدق حسین
اندرونی خلفشار مختلف جہتوں میں اپنے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ معشیت ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے کئے گئے معاہدوں کے بوجھ تلے زمیں بوس ہو ہی تھی کہ رہی سہی کسر کرونا وبا نے پوری کر دی ہے۔ سیاسی بحران ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ، ہر آنے والا دن اسے مزید گہرا اور شدید کر رہا ہے۔ حکومت ہے کہ اعلانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ لگتا ہے کہ آج جاتی ہے یا کہ کل ، اس کو لانے والے نئی بساط بچھانے کے لئے نئے کھلاڑیوں کی تلاش میں ہیں لیکن کھیل کے کچھ اہم کھلاڑی اب تک ان کے جھانسے میں آنے سے کنی کترا رہے ہیں نتیجا ملک ہے کہ ہر لحظہ بحرانوں کے گرداب میں پھنسا چلا جارہا ہے۔
عمومی طور پر اس اندوھناک اندرونی صورت حال کی بنا پر ایک ایسے بحران سے صرف نظر ہو رہا ہے جو پاکستان کی شمال مغربی سرحد پار ایک بار پھر جنم لے رہا ہے اور اس کے بھیانک اثرات پر اب تک کوئی خاص بحث نہیں ہو پا رہی۔ لیکن اس گھمبیر خطرے کا ادراک ان قوتوں کو ضرور ہے جو اس کی اثر انگیزی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اسی لئے اقتدار کی غلام گردشوں میں بے چینی اور بے یقینی اپنے عروج پر ہے۔
یہ افغانستان کی صورت حال ہے جو انتہائی ڈرامائی موڑ لے چکی ہے ، امریکی صدر جوبائیڈن کے اعلان کے مطابق امریکی فوج کا انخلا شروع ہو چکا ہے اور اس سال 11 ستمبر کے علامتی دن تک یہ انخلا مکمل ہو جائے گا ۔ قطر میں طالبان ، امریکہ اور افغان حکومتی نمائندوں کے مابین طویل مذاکرات ادوار نے خطہ میں ایک نئی صف بندی کو جنم دے دیا ہے جس میں پاکستان کے لئے پریشانی ہی پریشانی ہیں۔
گو ہماری ریاست کے دعوی کے مطابق اس نے طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں دوھا مذاکرات کو کامیاب بنانے پر آمادہ کیا لیکن حقیقت شاید اس کے کے برعکس ہے۔ ہمارے حکم رانوں کو خوش فہمی تھی کہ اس کی اجرت امریکہ سے کسی نہ کسی صورت ضرور وصول ہو گی لیکن امریکہ نے موجودہ حکم رانوں خصوصا عمران خان کو درخوراعتناء نہیں سمجھا گیا اسی لئے مختلف نشریاتی اداروں کو دئے جانے والے انٹرویوز اور پارلیمنٹ میں کی گئی وزیراعظم کی تقریر میں جھنجھلاہٹ کا پہلو خاصا نمایاں تھا۔
امریکہ نے ہمارے حکم رانوں کو ایک نئے مخمصہ میں مبتلا کر دیا ہے۔خطہ میں ابھرتے نئے منظر نامہ میں امریکہ پاکستان سے فوجی اڈوں اور راہ داری کا تقاضا کر رہا ہے جس کے لئے کوئی متفقہ جواب نہیں مل پا رہا ، ایک طرف وزیر اعظم کہتے ہیں ہم فوجی مقاصد کے لئے پاکستان کی سرزمین مہیا نہیں کریں گے جب کہ دوسری جانب وزیرخارجہ کہہ رہے ہیں کہ فضائی راہ داری کا معاہدہ تو بہت پہلے سے موجود ہے۔ ڈان اخبار میں وزارت خارجہ امور کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری کا ایک بیان 25 مئی 2021 کو شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ سنہ 2001 سے ائیر لائن آف کمیونی کیشن ( ALOC) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونی کیشن (GLOC) جیسے تعاون کے معاہدے موجود ہیں اور اس سے متعلق کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا جارہا۔ ترجمان کے اس بیان کی اب تک کوئی تردید سامنے نہیں ائی۔
مجھے پچھلے مہینے پاکستان کے ایک سابق وزیر خزانہ نے بتایا کہ چائنا نے پاکستان میں اپنے سفارت کار کے ذریعے بتا دیا ہے کہ اگر پاکستان نے امریکہ کو عسکری نوعیت کی کوئی بھی سہولت فراہم کی تو تمام سیاسی ، معاشی و تجارتی تعاون بشمول سی پیک سے ہاتھ کھینچ لیا جائے گا۔ اسی پس منظر میں افغانستان میں کسی بھی فوجی کارروائی کے لئے سہولت کاری پر طالبان کی دھمکی بھی موجود ہے۔ لیکن ماضی کا طرز عمل اور تاریخ کو یہی بتاتی ہے کہ حکم ران کریں گے وہی جو امریکہ کو بھائے گا لیکن عوام سے جھوٹ بولتے رہیں گے جیسا کہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سنجیدہ مسئلہ پر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر عوام کی سطح پر بحث کی جاتی اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کی جاتی۔
جہاں افغانستان پر امریکی قبضہ نے خطہ کی صورت حال پر نہایت ہی مضر اور دور رس اثرات مرتب کئے ہیں وہیں اس کے فوجی انخلا کے بعد اس سے بھی زیادہ بدتر صورت حال کے ابھرنے کے امکانات موجود ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انخلاء کے اعلان کے فورا بعد ہی طالبان نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنی فوجی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوششیں تیز تر کر دی ہیں جس کی وجہ سے دیگر سماجی ، سیاسی و نسلی گروہوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ افغانستان میں مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ کا کوئی واضح نقشہ ہی موجود نہیں اور نہ ہی اس اہم مسئلہ پر مقامی سطح پر کوئی سنجیدہ پیش رفت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ لگتا ہے ہر فریق طاقت کے بل پر اپنی حیثیت منوانے کی کوشش میں ہے۔
اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ رشید دوستم جیسا خونخوار لارڈ ترکی سے واپس افغانستان پہنچ چکا ہے ، اسماعیل خان ، عطا محمد اور ان جیسے دیگر طالبان مخالف جنگجو اپنے گروہوں کو نہ صرف مسلح کر رہے ہیں بل کہ ایک لمبی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ امریکی جنرل آسٹن ملر کا دعوی ہے کہ انخلا کے بعد افغانستان میں امن و امان کی صورت حال مخدوش ہو جائے گی۔ اسی لئے کئی ایک علاقوں میں مقامی ملیشیا طالبان کے ماضی کے سفاکانہ طرز حکومت سے بچنے کے لئے صف بندی کر رہے ہیں۔
1990 میں کابل میں صدر ڈاکٹر نجیب اللہ شہید کے بیہیمانہ قتل کے بعد جب نام نہاد متحارب مجاہدین کے مسلح گروہوں کی باہمی جنگ نے افغانستان کو ایک نہ ختم ہونے والے خون ریز بحران میں دھکیل دیا جس کا نتیجہ 1996 میں بیرونی قوتوں کی پشت پناہی سے طالبان کے افغانستان پر قبضہ کی صورت نمودار ہوا ۔ اس کے بعد طالبان نے افغانستان میں مذہب کے نام جو انسانیت کی تذلیل کی گئی اور افغان وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا وہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کو جواز بنا کر 7 اکتوبر 2001 کو Operation enduring Freedom کے نام سے فوجی جارحیت کے ذریعے طالبان کی حکومت کا خاتمہ اور افغانستان پر قبضہ کر لیا جسے اس وقت کے ہمارے فوجی آمر کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس سارے عرصہ میں افغان عوام کو ایک لمحہ بھی امن میسر نہیں آیا۔ امریکہ کے قبضہ سے پہلے ، قبضہ کے دوران اور اب قبضہ کے خاتمے کے بعد عام افغان کے لئے کچھ بھی نہیں بدلا۔ آج دو دھائیوں بعد امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے لیکن اپنے پیچھے ایسا افغانستان چھوڑے جارہا ہے جو پہلے سے زیادہ تقسیم شدہ اور خوف کا شکار ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ افغانستان پر قابض امریکہ اور اس کے خلاف برسر پیکار طالبان کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں ہی دہشت اور وحشت کی علامتیں ہیں۔تاریخ ایک تلخ تجربہ یہ ہے کہ امریکہ نے جہاں بھی قبضہ کیا وہاں اس نے تقسیم ، تباہی، بربادی، خوف اور بدامنی کے سوا کچھ نہیں دیا لیکن امریکی قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد آزادی کی تحاریک ہمیشہ انسان دوستی ، جمہوری اقدار، عورت احترام ، نسلی ، لسانی ، مذہبی اور قومی گروہوں کے حقوق کی پاس داری جیسے درخشاں آدرشوں پر استوار رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے افغانستان میں امریکی استعمار سے نبردآزما طالبان ان آعلی انسانی اقدار سے نہ صرف نابلد ہیں بلکہ انہیں سماج میں پنپنے ہی نہیں دینا چاہتے۔ اور اس سے زیادہ بدبختی یہ ہے کہ طالبان کو پالنے اور پشت پناہی کرنے والی قوتوں کی اپنی تاریخی عوام دشمنی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔
اب تک کی صورت حال اس امر کا عندیہ دے رہی ہے کہ مسقبل قریب میں خطہ اور خصوصا افغانستان میں پائیدار امن کے امکانات کسی حد تک معدوم ہی ہیں ۔ پاکستان کے لئے یہ ایک خوف ناک منظر نامہ ہو گا اگر افغانستان میں 1990 کہ طرح ایک بار پھر خانہ جنگی کا آغاز ہوتا ہے۔ ہم نے پچھلی صدی کی آخری دھائیوں میں دیکھا ہے کہ امریکہ اور اس کے مقامی ہواریوں نے کس طرح افغانستان کو خون میں نہلایا ، مذہبی منافرت کو خوب ہوا دی ، مسلح مذہبی لشکروں کو جہاد کے نام پر تیار کیا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں انسان لقمہ اجل بنے ، چالیس لاکھ افغان شہریوں نے پاکستان میں پناہ لی جس سے معاشی، معاشرتی ، نسلی اور لسانی منافرت نے جنم لیا۔ مسلح مذہبی لشکروں نے سماج کو یرغمال بنائے رکھا۔ افغان بحران کے تناظر میں جہاں دیگر مسائل موجود تھے وہاں ایک بڑا مسئلہ یعنی افغانستان اور قبائلی علاقوں سے ملک کے جنوب کی جانب بڑے پیمانے کی ھجرت کسی لحظہ بھی بڑے سماجی تصادم کو جنم دینے کا موجب بن سکتا ہے۔ ہجرت کے اس عمل سے سندھ اور بلوچستان میں آبادی کے تناسب میں کیفیتی تبدیلی کے خوف نے مقامی آبادی کے غصہ اور بےچینی کو سیاسی ایجنڈے کا ایک اہم حصہ بنا دیا۔
قرائن بتا رہے ہیں کہ ماضی کی طرح افغانستان ایک بار پھر سام راج اور اس کے حواریوں کی کوہ تاہ اندیشی اور ریشہ دوانیوں کی بنا پر کشت و خون کی آماجگاہ بننے جا رہا ہے اور خطہ مذہبی انتہا پسندی کی ایک نئی انتہا کو چھوئے گا ۔ یوں ایک بار پھر لاکھوں افغان شہری ہجرت پر مجبور ہوں گے ، جس کا کسی حد تک آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اور اب اگر ان کا رخ ان خطوں کی جانب ہو گا جو کہ اس شاخسانہ کے براہ راست ذمہ دار یا فریق نہیں ہیں تو پھر ان خطوں خصوصا سندھ او بلوچستان کی مقامی آبادی میں پنپتا غصہ اور بے چینی کو نفرت میں تبدیل ہوسکتا ہے جس کے بھیانک نتائج نمودار ہوں گے ۔
اس کے صورت حال کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ حکومت، مقتدرہ قوتیں، پارلیمینٹ، سیاسی جماعتیں افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلا کے تناظر میں بدلتی سیاسی صورت حال پر عوام کو اعتماد میں لیں اور ایک گرینڈ ڈائیلاگ یا گرینڈ جرگہ کا اہتمام کیا جائے ، پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور پسندیدہ گروہوں کی پشت پناہی کی پالیسی ترک کرے تاکہ افغانستان کو ایک پرامن آزاد ، متحد اور جمہوری افغانستان بنانے کے عمل میں مددگار بنا جاسکے جو کہ خطہ اور خصوصا پاکستان میں امن کی حقیقی ضمانت ہوگا ہے۔