آل پارٹیز کانفرنس: غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کی بھرپور مذمت، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ

آل پارٹیز کانفرنس: غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کی بھرپور مذمت، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ

اسلام آباد:  پیر کو مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں ایم پی سی میں صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ(ن) کے صدر نواز شریف کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری، احسن اقبال، شیری رحمن، حافظ نعیم الرحمن، مولانا فضل الرحمن، ایمل ولی خان اور یوسف رضاگیلانی و دیگر شریک ہوئے۔

 فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں جو ظلم و بربریت مچایا وہ کبھی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھا، جس انداز سے معصوم شہریوں کو قتل کیا جارہا ہے اْس پر عالمی قوتیں بھی خاموش ہیں، فلسطین پر آواز اٹھانے کیلئے ماہرین کا ایک گروپ بنا کر دنیا کے اہم ممالک میں بھیجیں گے،امدادی سامان بھی غزہ کے مظلوم عوام کے لیے بھجوایاجائے گا، وادی بھی کشمیریوں کے لہو سے سرخ ہوچکی ہے،کیا مسلمانوں کا خون سستا ہے؟،وقت آگیا ہے تمام قوتیں جمع ہوکر اس خونریزی کو بند کروائیں۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں ہونے والی تقاریر میں عقل و دانش اور جذبات شامل ہیں، میں نے سب کی باتوں کو غور سے سْنا، یہ اجتماعی سوچ اور فکر میرے اور ہم سب کیلئے بہت حوصلہ افزا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ یہاں پر بہت اہم باتیں ہوئیں، بالخصوص فلسطین کے حوالے سے عالمی دنیا کے کردار اور عالم اسلام کو آگے بڑھ کر مدد کا تذکرہ کیا گیا، اسی کے ساتھ قائد اعظم کے فرمان یا 1940 میں قرارداد پاکستان کی باتوں کی تائید نہیں کرنی چاہیے بلکہ فلسطین کی آزاد ریاست کی بات کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس کے بعد جو قرارداد متفقہ طور پر پیش کی جائے تو میری خواہش ہے کہ اْس میں فلسطین کی آزادی اور القدس شریف دارالخلافہ ہونا چاہیے، چاہے نگراں حکومت تھی یا آج کی مخلوط حکومت، کوئی بھی پاکستانی بدترین ظلم و ستم اور خونریزی جسے کسی انسانی آنکھ نے دیکھا نہ سْنا، بچے، مائیں شہید ہوئیں اور شہروں کے شہر تباہ ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر میں بھی یہی صورت حال ہے اور وہاں کی وادی بھی کشمیریوں کے لہو سے سرخ ہوچکی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کا خون سستا ہے؟ آج عالمی ضمیر کو 42 ہزار شہادتوں کے بعد جاگنا چاہیے، وقت آگیا ہے کہ تمام قوتیں جمع ہوکر اس خونریزی کو بند کروائیں،

شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین میں ہونے والی خونریزی کو بند کروانا ہماری اولین ترجیح ہے، اس کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کا پلیٹ فارم ہے، آج ہی ماہرین کا ایک گروپ بنائیں گے جو سیر سپاٹے کیلیے نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین کو دنیا کے اہم درالخلافوں میں جاکر پاکستان اور عالم اسلام کا پیغام پہنچائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اراکین دنیا کو جاکر بتائیں گے کہ یہ زخم رہتی دنیا تک بھر نہیں سکیں گے اور دنیا کے سامنے ظلم کو بے نقاب کریں گے۔

 انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطین کی نمائندگی کی کوشش کی، پھر جب نیتن یاہو آیا تو ہم نے واک آؤٹ کیا، جیسے ہی وہ ایوان میں آیا ہمارے پورے وفد نے واک آؤٹ کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ فلسطین میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے اور اس کے لیے ہم اسلامی ممالک کے ساتھ ملکر آواز اٹھائیں گے، ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو نہیں دیکھنا چاہیے، خدشہ تھا کہ اقوام متحدہ میں فلسطین کاز پر آواز اٹھانے کی وجہ سے ہمیں کوئی سزا ملی تو ہم اْسے پورا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک سے غربت ختم کر کے اور قوم کو متحد کریں گے تو پھر دنیا ہماری بات سنے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ فلسطینیوں کیلئے امدادی سامان میں اضافہ کیا اور مستقبل میں بھی حصہ ڈالیں گے۔

 وزیراعظم نے کہا کہ کانفرنس میں تجویز آئی جس کی روشنی میں مستقبل میں فلسطینی طالب علموں کے داخلے میں اضافہ کیا جائے گا، سرکاری یونیورسٹیز میں انہیں داخلے دیے جائیں گے۔شہباز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کو کامیاب قرار دیتے ہوئے دعا کی کہ فلسطین میں قتل عام اور خونریزی بند ہو، جلد جنگ بندی ہو اور پاکستان سمیت تمام عالم اسلام کے ممالک فلسطینیوں کے لیے کردار ادا کریں۔

اے پی سی جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ ہم ایک کانفرنس، قراردار پاس کرکے یا اعلامیہ جاری کرکے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے، پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائی جائے،پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے،فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

کثیر الجماعتی کانفرنس سے مولانا فضل الرحمن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی قابض ریاست کا قیام 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ کے جبری معاہدے کے نتیجے میں ہوا اور اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 1940 کی قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کے قیام کی مخالفت کی، جب اسرائیل قائم ہوا تو قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ناجائز بچہ قرار دیا۔

انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، آج صورتحال تبدیل ہوگئی ہے، جہاں فلسطینی حکومت کو جائز قرار دینے کی قراردادیں دنیا میں آنی چاہیں وہاں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی جارہی ہے لیکن گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی ہے اور اس کے بعد کسی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نہیں کی، اب اس مسئلہ کے حل کیلئے دو ریاستی حل کی بات ہورہی ہے یا فلسطینی ریاست کے قیام کی بات ہو رہی ہے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ اگر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہورہا ہے تو اس کے احترام میں بھی یکجہتی دکھانی چاہیے اور اگر ہمیں معیشت کے حوالے سے دنیا کا اعتماد حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے داخلی یکجہتی دکھانا ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک 50 ہزار غزہ اور خان یونس کے مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت چھوٹے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی ہے جبکہ 10 ہزار کے قریب لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، کیا آج ہم فلسطینیوں کے درد کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہمارے دل ان کے لیے تڑپ رہے ہیں؟ امت مسلمہ نے ایک سال میں جس غفلت کا مظاہرہ کیا وہ اللہ کے نزدیک جرم ہے اور ہم پاکستانی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اس انداز میں ہمدردی نہیں دکھائی جس طرح انہوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارا، جنوبی افریقا نے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ لڑ کر بہترین کام کیا اور مقدمہ جیتنے کے باوجود اسرائیل نے دھٹائی کا مظاہرہ کیا اور جنگ بندی نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ یہ ساری صورتحال ہمارے لیے سیاسی طور پر لمحہ فکریہ ہے، ہم ایک کانفرنس، قراردار پاس کرکے یا اعلامیہ جاری کرکے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حق ادا نہیں کرسکتے، فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ کہ اس کانفرنس کے ذریعے ہم یہ تجویز حکومت کو دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک پر مشتمل ایک گروپ بنایا جائے اور پوری اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے مشترکہ دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، آج جنگ ایران اور لبنان، یمن تک پھیل چکی ہے اور ایک چھوٹے سے جغرافیائی ملک نے پوری عرب دنیا کو اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے، ہماری یہ کانفرنس معنی خیز ہونی چاہیے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہاکہ پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے فورم پر بھی مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے تا کہ دنیا کے مختلف ممالک کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا جاسکے، ہمیں اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کا جو واضح مسئلہ فسلطین پر 1947 سے اور اس سے قبل جو واضح مؤقف تھا اسے اپنا کر دنیا کو ایک مضبوط پیغام دینا ہوگا۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین میں گزشتہ سال سے اب تک 85 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے جس کے نتیجے میں تقریباًً 80 سے 90 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور 10 ہزار افراد ملبے تلے دب چکے ہیں جبکہ 42 سے 43 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 30 ہزار بچے شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 173 صحافی بھی اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ شہید ہونے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کی تعداد 900 کے قریب ہے اور 128 زیر حراست ہیں۔

انہوں نے کہاکہ غزہ میں جاری مظالم کی وجہ سے اسکولوں، ہسپتالوں اور حتیٰ کے چرچز کو بھی تباہ کیا گیا ہے، اسرائیل انسانیت کے خلاف بدترین عمل سرانجام رہا ہے اور اسے نسل کشی کہا جائے گا۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمیں اس کثیر الجماعتی کانفرنس سے ایک فلسطین کی آزاد ریاست کا واضح پیغام دینا چاہیے، دو ریاستی حل کی بات کا مطلب پاکستان کے اسرائیل سے متعلق اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنا ہے، قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں پاکستان کا ایک ہی مؤقف رہا ہے کہ اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور ہم اسے ریاست تسلیم ہی نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کی بات کی اور اجلاس کے دوران ہی اس نے لبنان پر حملہ بھی کیا، اسرائیل غزہ میں براہ راست فاسفورس بم پھینک رہا ہے، آج اگر فسلطینی بچوں کی لاشیں ان بموں سے پگھل رہی ہیں تو کل کو ہمارے بچوں کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ اسرائیل کی بنیاد دہشت گردی ہے اور ان سے کوئی توقع نہیں کی جانی چاہیے، امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، 2019 سے 2023 کے عرصے کے دوران امریکا نے اسرائیل کو 310 بلین ڈالر فراہم کیے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ امریکا کی دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کی ایک وسیع تاریخ ہے اور وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کہتا ہے، حماس ایک قانونی تنظیم ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے ایک واضح مؤقف اپنانا چاہیے، ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں حماس کا آفس قائم ہونا چاہیے۔

 

 

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زراداری نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے سیاسی اور سفارتی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں، کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں،ہم واضح پیغام دینا چاہتے ہیں، فلسطین بہنوں اور بھائیوں کیساتھ کھڑے ہیں،

کثیر الجماعتی کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہاکہ پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ پیغام بھیجنا ضروری ہے اور اس لیے کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں ہیں، آج کا یہ فورم تمام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ہم فلسطین بہنوں اور بھائیوں کیساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ہر پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کی تقریر کے دوران بائیکاٹ شہباز شریف کا ایک دلیرانہ فیصلہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصل معنوں میں پاکستانی کی عوام کی طرف سے خارجہ پالیسی کی امید پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

بلاول بھٹو زراداری نے کہا کہ وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا آپ کو بھرپور تعاون حاصل ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے ہمیشہ آپ کی مدد کو تیار رہے گی۔انہوں نے کہاکہ اگر اس مقدمے کو پوری دنیا کے سامنے اٹھانا ہے تو اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپور ساتھ دیں گی اور کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا، ہم سیاسی جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں اور اگر خدانخواستہ وزیراعظم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے تو اس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 7 اکتوبر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اس حملے سے قبل امن اور سکون تھا اور ایک دن فلسطین کی عوام جاگ اٹھی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ قابض فورسز پر حملہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں نے تین چار نسلوں تک اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے، پوری دنیا ایک طرف اور فلسطین کے نہتے معصوم بچے، جوان بوڑھے دوسری طرف، پوری دنیا نے دیکھا کہ یرغمالیوں کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا، ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک بھی یرغمالی نہ ہو لیکن اکتوبر 7 کے بعد جو یرغمالی ہیں ان کی بھی بات کی جائے لیکن ان کے ساتھ ساتھ جو اسرائیل ریاست نے بچوں اور بوڑھوں کو تین، چار نسلوں تک ان کی جیلوں میں یرغمال رکھا اور ان پر مظالم ڈھائے تو یرغمالیوں کے ساتھ ان کی بھی بات کی جانی چاہیے۔

بلاول بھٹو زراداری نے کہاکہ میں سوال کرتا ہوں کہ اگر آج بھی جنگ کے پیچھے اکتوبر 7 کے یرغمالی ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ کتنے اسرائیلی یرغمالی یمن، ایران اور لبنان میں موجود ہیں؟ اکتوبر 7 اور یرغمالیوں کے واقعات بہانا ہیں، ان کا مقصد نہ صرف پورے فلسطین پر قبضہ کرنا اور نسل کشی کرنا ہے بلکہ یہ لبنان، مصر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور مسلم امہ نے بین الاقوامی سطح پر صیہونی ایجنڈے کوبے نقاب کرنا ہے اور ان کی اس سازش کو آج سے بے نقاب کرنا ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ میں غیرمسلم ممالک کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے نسل کشی کے خلاف ایک اصولی مؤقف اپنایا ہے، وہ وزیراعظم اور صدر مملکت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ہمارے اپنے جتنے مسائل ہوں لیکن ہم متحد ہیں۔

 

آل پارٹیز کانفرنسفلسطین
Comments (0)
Add Comment