آصفہ بھٹو نے وفاقی بجٹ عوام دشمن قرار دے کر مسترد کردیا

آصفہ بھٹو نے وفاقی بجٹ عوام دشمن قرار دے کر مسترد کردیا

کسانوں، مزدوروں، غریبوں کے لیے اس بجٹ میں کچھ نہیں، رہنما پیپلز پارٹی کا قومی اسمبلی میں خطاب

چوڑیوں کا ایک جوڑا اپنے اور ایک اسد قیصر کیلئے لیا، نوشین افتخار………………چوڑیاں مائیں اور بیٹیاں پہنتی ہیں، اسے طعنہ نہ بنائیں، شازیہ مری

 اسلام آباد:   پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما آصفہ بھٹو زرداری نے وفاقی بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر مسترد کردیا۔اپنے خطاب میں آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ کسانوں، مزدوروں، غریبوں کے لیے اس بجٹ میں کچھ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ وفاقی بجٹ عوام کی نمائندگی نہیں کرتا، پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا پاکستان کے لوگ اس عوام دشمن بجٹ کے مستحق ہیں۔پی پی رہنما نے کہا کہ ہمیں عام آدمی کے ریلیف کے لیے آگے بڑھنا ہوگا اور تقسیم کی سیاست کو مسترد کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ اس ایوان کا حصہ بننے پر فخر محسوس کرتی ہوں، اس وقت ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا یہ بجٹ عوامی امنگوں کے مطابق ہے؟ نئے مالی سال کا بجٹ عوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ کی ترجیحات میں کسان اور عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنا چاہیے تھا، ہمیں کسان کو مضبوط کرنا ہوگا، دراصل کسان کو کبھی سیلاب تو کبھی گندم درآمد کا مسئلہ ہے۔

پی پی رہنما نے کہا کہ شدید گرمی میں 15 سے 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ عذاب ہے، ہمیں ملک کے غریب ترین شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی، ہمیں پاکستان اور قوم کی خوشحالی کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اجلاس سے خطاب میں شازیہ مری نے کہا کہ اس ایوان میں خواتین کا خیال رکھا جائے، یہاں کہا گیا کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چوڑیاں تو آپ کی مائیں اور بیٹیاں بھی پہنتی ہیں، اسے طعنہ نہ بنائیں۔پی پی پی رہنما نے کہا کہ سرگودھا اور سوات کے واقعات تکلیف دہ تھے، جتھے جسٹس مسائل کا حل نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ سرگودھا اور سوات جیسے واقعات پر کبھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنی چاہیے۔شازیہ مری نے کہا کہ غزہ میں بچوں، عورتوں، بزرگوں پر اسرائیلی فورسز کی بربریت اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس حکومت کے ساتھ بیٹھے تو کسی معاہدے کے تحت بیٹھے تھے، ہم نے جو معاہدہ کیا تھا، اس کا احترام نہیں کیا جارہا تھا، ہم مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔پی پی رہنما نے کہا کہ پیپلز پارٹی پاکستان کے استحکام اور عوام کیلیے ہمیشہ حمایت کرتی ہے، ہمارے نمائندوں کو وہ عزت نہیں مل رہی تھی، جس کی وجہ سے ہم اپنے اعتراضات پر بات کرنے کیلیے مجبور ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ وزیر خزانہ کی تقریر پر ہم نے ٹوکن واک آوٹ کیا تھا، ایوان میں نہیں تھے، بلاول بھٹو زرداری کو اعتماد میں لے کر یہ بجٹ نہیں بنا، یہ وزیر خزانہ تصحیح کرلیں۔

شازیہ مری نے کہا کہ آپ کا فوکس اچھا خاصہ ٹیکسوں پر ہے، بہتر ہوتا اسے متوازی کیا جاتا، ہم چاہتے ہیں ٹیکس نیٹ بڑھے مگر ہم نہیں چاہتے تنخواہ دار کو رگڑا لگے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر بھی انہی کے پیچھے جاتا ہے جو ٹیکس دیتے ہیں، آپ اپنی معیشت کو ڈاکیومنٹ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔پی پی رہنما نے کہا کہ یہ کڑوا گھونٹ سب نے پینا ہے جو سب نے مانا ہے تو سب کو قربانی دینا ہے، آپ نے بالواسطہ طور پر اتنا ٹیکس لگا دیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ آپ 2 اعشاریہ 5 ٹریلین کا ہندسہ تو دے رہے ہیں، یہ ٹارگٹ کیسے بڑھائیں گے، آپ کی معیشت پھیلنے کی بجائے سکڑ جائے گی۔شازیہ مری نے کہا کہ عام پاکستانی کا تحفظ کرنا ہوگا امید ہے اس کا حکومت کے پاس پلان ہوگا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی نوشین افتخار نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اسد قیصر نے ایوان میں چوڑیوں کی بات کی تو کل میں بھی چوڑیاں لینے گئی، ایک جوڑا اپنے لیے اور ایک اسد قیصر کے لیے لیا۔ نوشین افتخار نے کہا کہ یہ ایوان ایک سرکس کی طرح ہے جہاں تماشا لگا ہوا ہے۔ نوشین افتخار نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ڈسکہ الیکشن چرانے کی ناکام کوشش کی۔رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کی خواتین قابل احترام ہیں۔

نوابزادہ جمال رئیسانی نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں یوتھ پروگرام تشکیل دینے چاہیئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں اسپورٹس کو حکومت نے نظرانداز کر دیا ہے۔نوابزادہ جمال رئیسانی نے کہا حکومت نے نوجوانوں کیلئے کوئی پالیسی مختص نہیں کی۔ نوجوان طبقہ مایوس ہو کر دہشت گردی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

 نوابزادہ جمال رئیسانی نے کہا ہمارے پاس نوجوانوں کے لیے کوئی پلان یا پالیسی نہیں۔ مجھے 64 فیصد آبادی کی نمائندگی کرنی ہے۔ صوبوں سے مل کر بنیادی تعلیم پر کام کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا اس بجٹ میں کھیل جیسے بنیادی شعبے کو مکمل نظرانداز کر دیا گیا۔ اسپورٹس اسکالر شپ پر کام کرنا چاہیے تھا۔ جمال رئیسانی نے کہا کہ میرا تعلق ایک ایسے صوبے سے ہے جہاں لوگ آج بھی بدترین زندگی گزار رہے ہیں۔بعد ازاں قومی اسمبلی کااجلاس (آج)پیر کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیاگیا۔

آصفہ بھٹوبجٹ
Comments (0)
Add Comment