چانگ عہ-6، چاند کے نئے راز آشکار کرنے کے مشن پر

تحریر:  سارا افضل 

 

چانگ عہ-6، چاند کے  نئے راز آشکار کرنے  کے مشن پر

چین کا چانگ عہ- 6 اتوار کی صبح چاند کے دور  دراز  حصے پر اترا۔ چاند کے اس علاقے کو ابھی تک مکمل دریافت نہیں کیا گیا ہے اور   انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ چانگ عہ -6   اس  علاقے سے نمونے جمع کرے گا۔کیوکیاؤ-2 ریلے سیٹلائٹ کی مدد سے چانگ ای-6 پروب کا لینڈر-اسینڈر امتزاج جنوبی قطبی حصے کے ایٹکن بیسن میں بیجنگ وقت کے مطابق 6 بج کر 23 منٹ پراس مقررہ لینڈنگ ایریا میں کامیابی سے اتراجہاں ممکنہ طور پر بہت سارے میگما  کا احاطہ کیا جا سکتا ہے، جو ارضیاتی تحقیق کے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور سائنسی اہمیت  کا حامل ہے۔یہ انسانی تاریخ میں پہلا موقع ہے جب چاند کے دور دراز حصے سے چاند کے نمونے حاصل کیےجا رہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ  اگر چینی سائنسدان دور دراز سے چاند کی سطح پر موجود بھربھری مٹی کے  نمونے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ایک بے حد اہم پیش رفت ہوگی ۔

چینی روایات  کی چاند دیوی کے نام سے منسوب چانگ عہ – 6  پروب میں ایک آربیٹر، ایک ریٹرنر، ایک لینڈر اور ایکاسینڈر شامل ہے۔ 3 مئی کو لانچ ہونے کے بعد مختلف مراحل سے گزرنےاور مختلف امور سرانجام دینے کے بعد یہ 30 مئی کو آربیٹر اور ریٹرنرسے الگ ہو گیا تھا۔ چاند پر اترنے کے دوران لینڈر کے کیمروں نے لینڈنگ ایریا کی تصاویر کھینچیں اور انہیں لینڈر پر موجود کمپیوٹرز پر منتقل کیا تاکہ سطح پر بڑی چٹانوں جیسےممکنہ خطرات کی نشاندہی کی جا سکے اور ان سے بچنے کے لیے فوری طور پر حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔ سپیس ایڈمنسٹریشن کے مطابق یہ مشن کافی مشکل تھا اس کے   ابتدائی مراحل میں کیوکیو-2 ریلے سیٹلائٹ لانچ کیا گیا ، جس نے  چاند کی سطح سے تیزی سےانٹیلی جنٹ سامپل  لینے ،ٹیک آف اور اسینڈنگ  ٹیکنالوجیز کو اپنایا، جس سے  سافٹ لینڈنگ اور غیر زمینی اجسام پر سیمپلنگ جیسی ٹیکنالوجیز کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم ہوئی  ہے۔لینڈنگ کے بعد چاند کے نمونے لینے کے دو طریقے اپنائے گئے ہیں، جن میں زیر زمین نمونے جمع کرنے کے لیے ڈرل کا استعمال اور روبوٹک آرم  سے سطح پر نمونے حاصل کرنا شامل ہے۔چاند کی تلاش کے لئے ہونے والی ایک بڑی پیش رفت کے طور پر  ، چانگ ای -6 ایک انٹیلیجنٹ ماڈل  پراسیس  سے تحقیقات کو خود مختار طریقے سے ہدایات پر عمل درآمد کرنے اور سینسر ڈیٹا کی بنیاد پر  رئیل ٹائم  فیصلے کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا  ہے ، جس سے زمین کے ساتھ مستقل مواصلات کی ضرورت کم ہوجاتی ہے۔بنیادی طور پر ، چانگ ای -6 پیچیدہ ہدایات کو چھوٹے اقدامات میں تقسیم  کرتے ہوئے  اور  آن بورڈ سینسرز کا استعمال کرتے ہوئے ان کی کامیابی کی تصدیق کرسکتا ہے نیز  مشن کنٹرول سے مزید احکامات کا انتظار کیے بغیر ضرورت کے مطابق اپنے نقطہ نظر کو ایڈجسٹ کرسکتا ہے۔ یہ نمایاں طور پر سیمپل کولیکشن پراسیس  کو  زیادہ آسان اور ہموار کرتا ہے  نیز زمین اور چاند کے سگنلز کے وقفے کی وجہ سے ہونے والی تاخیر کے دورانیے کو بھی  کم سے کم کرتا ہے۔

چین کے بین الاقوامی تعاون کے حوالے سے بھی یہ مشن اہم  ہے کیونکہ اس  مشن میں لینڈر پر تین بین الاقوامی پے لوڈز  بھی نصب ہیں ۔ ان میں ، یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کم چاند کی سطح کا negative ion analyzer، فرانس کاlunar radon detectorاور اٹلی کاlaser retro-reflector، بوٹ اپ  کے بعد  آپریشن شروع کریں گے۔ یہ تینوں آلات چاند کے گوشہ بعیدمیں سائنسی تحقیق کا کام سر انجام دیں گے۔ان میں ڈی او آر این کا مقصد  یہ سٹڈی کرنا ہے کہ کیسے  ایک قیمتی غیرمعممولی گیس ریڈون، چاند کے  مٹی سے خارج ہوتی ہے  اور یہ تابکار گیس اور پانی جیسے مادے کی دیگر شکلیں چاند کے ایکسوسفیئر میں کیسے منتقل ہوتی ہیں۔ این آئی ایل ایس کا استعمال شمسی ہواؤں کی پیمائش کے لیے کیا جائے گا جو چاند تک پہنچنے پر چاند کی سطح سے منعکس ہوتی ہیں ، جبکہ لیزر ریٹرو ریفلیکٹر کا بنیادی مقصد زمین اور چاند کے درمیان فاصلے کی پیمائش کرنا ہے۔اس پروب میں پاکستان کا ایک کیوب سیٹلائٹ بھی شامل ہے جسے آئی سی یو بی ای کیو کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ 8 مئی کو چانگ عہ 6 آربیٹر سے علیحدہ ہوا تھا تاکہ چاند کی تصاویر لینے جیسی تحقیقاتی سرگرمیاں انجام دی جا سکیں۔فرانسیسی نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ  کے مطابق ان کا lunar radon detector نہ صرف گہری خلائی تحقیق اور نظام شمسی کی تلاش کے میدان میں فرانس اور چین کا پہلا تعاون ہے بلکہ یہ پہلا فرانسیسی آلہ بھی ہے جو چاند پر گیا ہے۔

چانگعہ- 6 مشن نے جو تکنیکی کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں چاند کے مدار کے ڈیزائن اور کنٹرول ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔ چانگ عہ-6 پروب کو چانگ عہ-5 سیمپل مشن سے مختلف علاقے کا سامنا ہے۔ نمونے حاصل کرنے کے لئے، پروب کو مواصلات کے لیے ایک ریلے سیٹلائٹ کی ضرورت ہوتی ہے  جسے اور بھی زیادہ موثر اور وقت کے لحاظ سے حساس ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود.چانگ عہ- 6 اپنے پیشرو کے مقابلے میں تیز تر نمونے لینے کے لیے مکمل طور پر لیس ہے ۔ توقع ہے کہ اس میں تقریبا 14 گھنٹے لگیں گے ، جو  نمایاں طور پر چانگ عہ -5 کو درکار 22 گھنٹوں سے کم وقت ہے۔ چانگ عہ 5 کے نمونے لینے کے پورے عمل کے دوران اسے تقریبا 1000 ہدایات بھیجی گئیں لیکن چانگ  عہ- 6 کے لیے  متوقع  تعداد تقریباً 400 ہے۔چاند پر سیمپلنگ کے عمل کو ہموار بنانے کے لیے سی اے ایس سی کے خلائی ماہر جن شینگی کی سربراہی میں چانگ  عہ -6 تحقیقاتی ٹیم نے پیشگی ایک محتاط سیمولیشن لیب تیار کی۔ یہ لیبارٹری اس مشن کے تحقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر ماحول، چٹانوں کی تقسیم اور چاند کی مٹی کے حالات کے ساتھ چاند کی لینڈنگ سائٹ کو کاپی  کرتی ہے۔ ماحول کی کاپی  کرکے ، ٹیم نمونے کی حکمت عملی اور سازوسامان کے کنٹرول کے طریقہ کار کو تیار کر کے اس کی تصدیق کرسکتی ہے اور  تحقیقات کے لیے بھیجی گئی ہدایات کی درستگی کو یقینی بناسکتی ہے۔

چین کا خلائی تحقیقاتی مشن ہو یا قمری و شمسی تحقیق ، چین بے حد منظم منصوبہ بندی کے ساتھ بغیر کسی تعطل کے مسلسل اپنے سفر کو آگے بڑحا رہا ہے اور ہر مشن کبھی سائنسی تحقیق کے حوالے سے اور کبھی بین الاقوامی تعاون کے حوالے سے ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے ۔ اس سب کو  دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمان تک اور خلا کی وسعتوں میں بھی چین دنیا کے ساتھ مل کر نئے نئے راز آشکار کرنے اور ایک مشترکہ کمیونٹی تشکیل دینے کے لیے تمام دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کا موقع فراہم کررہاہے۔

چاندچانگ عہ-6
Comments (0)
Add Comment