قائد اعظم کا پاکستان چاہیے!

ہمیں اِدّراک نہیں کہ ملک کتنی قُربانیوں کے بعد معرضِ وجود میں آیا

تحریر : سید قلب نوازسبزواری

 

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں پیدا ہوئے اور ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں لیکن ہمیں اِدّراک نہیں کہ ملک کتنی قُربانیوں کے بعد معرضِ وجود میں آیا۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے ولا ملک جس کا خواب شاعر مشرق، عظیم فلاسفر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے دیکھا تھا اور عملی جامہ معروف قانون دان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اکابرینِ تحریکِ پاکستان کے ساتھ مل کر پہنایا۔اکابرینِ تحریکِ پاکستان، جن میں ڈاکٹر علامہ اقبال ، سرسید احمد خان ،مولانا محمد علی جوہر،حسرت موہانی ،راجا امیر احمد خان آف محمود آباد،مرزا ابوالحسن اصفہانی ،راجہ غضنفر علی خان ، سیٹھ محمد علی ، سیدوزیر حسین آغا،سر آدم جی ، نواب فتح علی خان قزلباش، سمیت دیگر شخصیات شامل ہیں، کی طویل جہدوجہد اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا ذکر اور انہیں خراج تحسین پیش کر نا ضروری ہے جن کی انتھک کاوشوں کے باعث پاکستان معرض وجود میں آیا۔ تحریک پاکستان کی ایک عظیم لازوال داستان ہے جس کا علم رکھنا تما م پاکستانیوں کیلئے لازم ہے کہ یہ ملک کسی آمر کی کاوشوں یا جنگ کے نتیجہ میں نہیں بلکہ خالصتاً عوامی جدوجہد کے نتیجہ میں بنا ، پاکستان کے قیام و آزادی کیلئے خواتین ،بچوں ،بوڑھوں ،ماو ¿ں، بہنوں اور جوانوں نے اپنی قربانیاں وشہادتیں دے کر تاریخ رقم کی ۔ اس ملک کے قیام کیلئے عوام نے مشکلیں برداشت کیں۔ ہر انسان کے سامنے اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی نظریہ ضرور ہوتا ہے اس کے بغیر زندگی بے معنی ہوکررہ جاتی ہے ،جب کوئی مقصد/ نظریہ بہت سے لوگوں کا مشترکہ نصب العین بن جائے تو وہ لوگوں کا مشترکہ نظریہ حیات کہلاتا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی تحریک کے پیچھے کوئی نہ کوئی نظریہ ضرور کارفرما ہوتا ہے ،اجتماعی زندگی میں نظریے کی حیثیت روح سی ہوتی ہے۔کسی بھی تحریک یا جہدوجہد میں جب پوری قوم اور لوگوں میں مکمل اتحاد یکجہتی و یگانگت نہ ہوگی تو وہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ تحریک ِپاکستان کی جہدوجہد میں اس وقت کے مسلمان برصغیر پاک و ہند کے لوگوں نے مکمل طور پر اکابرینِ تحریکِ پاکستان کا مکمل اتفاق و اتحاد اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر ساتھ دیاتب جاکر قائد اعظم کی سربراہی میں ایک ملک معرض وجود میں آیا۔

انتہائی دکھ کرب سے لکھنا پڑتا ہے کہ پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے اور 74سال کے بعدکیا پاکستان اس طرح چل رہا ہے جیساقائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے؟کیا جن مقاصد کےلئے ملک حاصل کیا گیا تھا کیاوہ مقاصد( افسوس کے ساتھ) ہم نے حاصل کرلئے ہیں؟ نئے پاکستان اور، تبدیلی لانے کا نعرہ لگانے، ریاست مدینہ بنانے کے دعوے دار موجودہ حکومت نے کیا پاکستان کو قائد کا پاکستان بنا دیا ہے؟کیا ملک سے کرپشن و افسر شاہی ختم ہوگئی ہے ؟ کیا ادارے آزادانہ طورپر کام کر رہے ہیں ؟ کیا اس ملک کے ادارے اپنے حدود و اختیارات کا ناجائز استعمال تو نہیں کر رہے ؟کیا اس ملک میں صحافیوں کو لکھنے اور بولنے کی مکمل آزادی ہے ؟ تو جواب نفی میں آئے گا۔ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی جس طرح معرض وجود میں آئی ہر باشعور شخص اچھی طرح باخبر ہے ان کے پاس ظاہری طور پر اقتدار تو ہوتا ہے لیکن اختیار نہیں اور جس طرح ہمارے ملک میں حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے کا عمل عرصہ دراز سے جاری ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی وفات کے بعد آئین پاکستان کے ہوتے ہوئے اس ملک پر غیر آئینی اقدامات کے ذریعے حقیقی جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا ۔دولخت ہونے کے سانحہ کے ساتھ ہی حقیقی پاکستان غائب ہو گیا اور جو حصہ باقی رہا ، اس میں اقتدار اور طاقت کے لئے چھینا جھپٹی شروع ہو گئی،ملک اپنی راہ گم کر بیٹھا اور سیاسی افراتفری اور نظریاتی کشمکش کا شکار ہو گیا۔ قائد کے پاکستان کو گزندپہنچانے کیلئے ایک طر ف سول اور فوجی حکمرانوں اور دوسری طرف لبرل اور مذہبی رہنماﺅں میں رسہ کشی اقتدار کے ایوانوں پر انمٹ نقش بن کر رہ گئی۔ اس لوٹ مار کے ماحول میں پاکستان میں آئین کی بالا دستی اور اداروں کی مضبوطی پر مبنی جمہوری عمل پنپ ہی نہ سکا، اس کے نتیجے میں اداروں کی ترقی کے عمل کو بھی شدید دھچکا لگا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی ؒ خدا وند کریم کی عطا سے وقت سے آگے دیکھنے کی بصیرت سے بھی مالا مال تھے۔ حضرت قائداعظمؒ نے اپنے 11 اگست 1947ءکے خطاب میں آنے والی حکومتوں اور قانون سازوں کی ا س حوالے سے رہنمائی بھی کی جو آنے والے زمانے میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بننے والا تھا۔ انہوں نے فرمایا ”ایک حکومت کا سب سے اولین فریضہ امن و امان قائم رکھنا اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے“۔ قائد نے آنے والے حکمرانوں کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ رشوت، بدعنوانی، چور بازاری، اقربا پروری اور کام چوری سے خبردار رہیں اور ان برائیوں کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیں۔کیا 74سالوں میں ہماری حکومتوں اور اداروں نے ایسا کیا ؟ 14 جون 1948ءکو سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے خطاب فرماتے ہوئے قائد ِ اعظم نے انہیں ان کی آئینی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔انہوں نے مسلح افواج کے افسران کو خبر دار کیا کہ وہ کبھی بھی ملکی سیاست میں نہ الجھیں، تاہم ہمارے ہاں حلف سے انحراف اور فوجی مداخلت کی طویل داستانیں موجود ہیں اور ان کا تسلسل جاری ہے۔اپنی زندگی کے آخری سال آپ نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد قانون ساز، فوجی افسران، سرکاری ملازم، اساتذہ، طلبہ، کاروباری افراد، مزدور، وکلاءوغیرہ سے خطاب فرمایا اور پاکستان کو ایک جدید فلاحی مملکت بنانے کے لئے انہیں رہنما اصول دیئے۔ قائد نے ان پر دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا کہ ریاست ان سے کس طرز ِ عمل کی توقع رکھتی ہے۔

محمد علی جناح مذہبی آزادی اور بین المذاہب ہم آہنگی پر یقین رکھتے تھے۔ آپ نے قوم پر زور دیا کہ وہ فرقہ واریت کو ترک کر دے، مگر ہمارا طرز ِ عمل قائد کے فرامین کی نفی کرتا ہے۔ آج ہمارے ہاں پائی جانے والی مذہبی انتہا پسندی ، تنگ نظری اور عدم برداشت کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پر تشدد فرقہ واریت نے معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ریاستی ادارے ماں کی مانند ہوتے ہیں جس کے نزدیک سب برابر ہوتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایساہے ؟اس ملک میں مختلف مذہبی ، سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے شہری آزادیوں پر قدغن لگانے کی صدائیں بلند ہورہی ہیں جس سے پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے ۔ ملک کی اندرونی، خارجہ و معاشی پالیسیاں منتخب نمائندوں اور جمہوری ایوانوں کی جگہ کہیں اور بن رہی ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پالیسیاں مسلط کی جارہی ہیں جس سے ملک آگے بڑھنے کی بجائے مزید پیچھے کی جانب جا رہاہے اور مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیں ، انہی ناقص پالیسیوں کے باعث دہشت گردی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑ ا کیا ہے۔ آج اگر قائد دیکھتے کہ ہم خانہ جنگی کی آگ میں کس طرح خود کو خاکستر کر رہے ہیں تو انہیں کتنی تکلیف ہوتی۔ہما رے قائد نے ہمیں تین رہنما اصول دیئے تھے” اتحاد ، تنظیم اور ایمان“ تاہم ہمیں اپنی قومی زندگی میں ان کا کوئی ”مصرف “ نظر نہ آیااور جہاںتک قانون کی حکمرانی کا تعلق ہے ، تو اس کا ہمارے ہاں کوئی کام ہی نہیں لہذاہم کہیں نیا پاکستان بناتے بناتے قائد اعظمؒ کے بنائے بقیہ پاکستان کو مزید خطرہ میں نہ ڈال دیں ۔ اس لئے کہ موجودہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے جسے راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے ۔

ملک میں صحافت پر لگائی جانے والی غیر اعلانیہ بندشیں، قدغنیں، دھمکانے، نشانہ بنانے ، مار پیٹ کرنے ، غدار بنانے اور دیگر جمہوری، سیاسی و مذہبی تنظیموں سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی آزادیوں کو محدود کرنے، ان کی سوچ کو سلب کرنے ا ور ڈکٹیٹ کرکے کیا ہمارے ادارے قائد کے افکار پر عمل کر رہے ہیں ؟ نہیں بلکہ اداروں کا یہ عمل عوام میں نفرتوں کا باعث بن رہاہے جو پاکستان کے مستقبل کیلئے نیک شکون نہیں ۔تمام سٹیک ہولڈر قابل احترام اور ملک کی ترقی کے ضامن ہیں،اگر اداروں میں شامل ا فراد اپنے ذاتی مفادات کی بجائے ملکی مفادات کو مدنظررکھتے ہوئے ملک اور عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں،ایک دوسرے کے حق کو تسلیم واحترام کو ملحوظ خاطر رکھیں،اپنی اپنی سطح پراپنامحاسبہ کریں اور اداروں کی کارکردگی میں بہتری و مثبت پالیسیوں کو فروغ دیتے ہوئے ماضی کی غلطیوں کامداوا کرکے انہیں دہرائے بغیر غلطیوں کا ازالہ کریں تب جاکر ملک ترقی کی جانب گامزن ہوگا تب جاکر آنے والی نسلوں کو ایک ترقی یافتہ محفوظ ملک نصیب ہوگا او ر اس طرح قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔

تحریکِ پاکستانڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒمحمد علی جناح
Comments (0)
Add Comment