تحریر: سارا افضل
بوآؤفورم فار ایشیا میں تجارتی تحفظ پسندی کی مخالفت اور کثیر الجت تجارتی نظام کی حمایت کا عزم
حالیہ برسوں میں گلوبلائزیشن اورکثیرالجہت تجارتی نظام کو کچھ ممالک میں سست معیشتوں اور مقامی سیاست کی وجہ سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، جس نے تجارتی تحفظ پسندی کو جنم دیا ۔ اس کے نتیجے میں عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے کردار کو خطرہ لاحق ہوا اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں منعقد ہونے والے بوآؤ فورم فار ایشیا ۲۰۲۴ میں شرکاء نےتجارتی کثیر الجہتی کو برقرار رکھنے اور تحفظ پسندی کی مخالفت کرنے پر زور دیا ہے ۔
ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے لیے چین کی جانب سے مذاکرات کے سابق سربراہ کار لونگ یونگٹو کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ٹی او کو بے حد محدود کر دیا گیا ہے اور آج سب سے اہم کام یہ ہے کہ ایسا کوئی حل تلاش کیا جائے جس سے تمام ممالک ڈبلیو ٹی او کے کردار اور کام کو مضبوط بنائیں اور کچھ ضروری اصلاحات کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کا راستہ تلاش کریں۔بی ایف اے بورڈ کے رکن اور سابق امریکی وزیر تجارت کارلوس ایم گوٹیریز ن کے مطابق آج کی دنیا میں امریکہ پر "ڈی گلوبلائزیش ٹرینڈ ” کی کافی زیادہ ذمہ داریہے ، اس کی وجہ یہ کہ امریکہ نے "سیاسی قوم پرستی” کو اپنایا ہے جس کی عکاسی اس کے "امریکی اشیا خریدیں” اور "ملازمتیں امریکہ میں واپس لائیں” سے ہوتی ہے۔دنیا کو آگے لے کر چلنا ہے تو یہ انفرادی قوم پرست پالیسیاں نہیں بنائی جا سکتیں ، کیونکہ یہ گلوبلائزیشن کے خلاف ہیں۔امریکہ کے لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ایک خوشحال دنیا ،امریکہ کے لیے فائدہ مندہے کیونکہ "تحفظ پسندی” تحفظ فراہم نہیں کرتی ہے۔اس وقت دنیا میں جو معاشی عدم استحکام ہے اس کو دور کرنا بے حد ضروری ہے اور اگر تمام لوگ چھوٹے علاقوں میں محدود ہو کر، اونچی دیواروں کے پیچھے رہیں گےاور پیسے بنانے کے لیے مل کر کام نہیں کریں گےتو ہم خوشحالی اور ترقی کے معاملے میں ہار جائیں گے۔ مارکیٹ بند ہونے یا اس کو دوسروں کے لیے محدود کرنے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک طویل مدتی معاشی بحران کا باعث بنے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بوآو فورم فار ایشیا میں تمام ممالک نے ڈبلیو ٹی او کے کردار کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا اور اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ڈبلیو ٹی او کو سرحد پار ای کامرس اور ڈیجیٹل تجارت جیسے نئے عالمی مسائل کے لیے عالمی تجارتی قوانین قائم کرنے کے کام کو مضبوط کرنا چاہیےاور ڈبلیو ٹی او کے تنازعات کے تصفیے کے میکانزم کو جلد بحال کیا جانا چاہیے۔
اس وقت کچھ ممالک نے بین الاقوامی تجارت کو ،بے روزگاری کی شرح میں اضافے ، سست معیشت اور متوسط طبقے کے سکڑنے جیسے داخلی مسائل سے فرار کے لیے استعمال کیا ہے۔ کچھ ترقی یافتہ ممالک نے مینوفیکچرنگ مسابقت کھونے کے بعد پابندیاں عائد کرنا شروع کردی ہیں جس سے گلوبلائزیشن کو آگے بڑھانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب کثیر الجہت تجارتی نظام مکمل طور پر فعال نہیں ہے ، کچھ ممالک آزاد علاقائی تجارتی معاہدوں جیسے ذیلی حل کی طرف رخ کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ علاقائی تعاون مکمل طور پر عالمی میکانزم کی جگہ نہیں لے سکتا ہے۔
چین کئی برسوںسےکثیرالجہتی کا بھرپورحامی رہاہے۔ بوآو فورم فار ایشیا سے چینی صدر کے خطاب میں بھی حقیقی کثیر الجہتی کو برقرار رکھنے اور قوانین بنانے والے عالمی اداروں کے کردار کو زیاد ہ مضبوط بنانے کی بات کی گئی ۔ اپنے خطاب میں صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ گلوبل گورننس کو دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی اورمعاشی منظرنامےکی عکاسی کرنی چاہیے۔دنیا کو وسیع مشاورت، مشترکہ شراکت اورمشترکہ فوائد کے اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، حقیقی کثیرالجہتی کوبرقراررکھنےاورعالمی حکمرانی کے نظام کو زیادہ منصفانہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ بہت ضروری ہے کہ عالمی برادری اقوام متحدہ پرمرکوزبین الاقوامی نظام کا تحفظ کرے، بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھےاورعالمی تجارتی تنظیم کے ساتھ کثیرالجہت تجارتی نظام کو برقرار رکھے ۔ ہمیں ایک یاچندممالک کے طے کردہ قوانین کو دوسروں پر مسلط نہیں ہونےدیناچاہیےاورنہ ہی بعض ممالک کی جانب سے اختیار کی جانے والی یکطرفہ پالیسی کو پوری دنیا کے لیے رفتار متعین کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ آج کی دنیا میں ہمیں انصاف کی ضرورت ہے نہ کہ بالادستی کی۔ بڑےممالک کو اپنی حیثیت کے مطابق اور زیادہ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ معاملات کو برتنا چاہیے۔ ترقی کے لیے کشادگی ضروری ہے اس لیے عالمی برادری کو تجارت اور سرمایہ کاری کی لبرلائزیشن اور سہولت کاری کو فروغ دینے، علاقائی اقتصادی انضمام کو گہراکرنےاورسپلائی چین ، انڈسٹریل ،ڈیٹا اور ہیومن ریسورس چینز کو بڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ ایک کھلی عالمی معیشت تشکیل دی جاسکے۔ چینی صدر نے کہا کہ معاشی گلوبلائزیشن کے اس دور میں،کشادگی اور انضمام ایک ناقابل تسخیرتاریخی رجحان ہے۔ "دیواریں کھڑی کرنے” یا "الگ کرنے” کی کوششیں معاشات اور مارکیٹ کےاصولوں اور قوانین کےمنافی ہیں اور وہ نہ صرف اپنےآپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گی بلکہ دوسروں کےمفادات کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔
ڈبلیو ٹی او کے سب سے بڑے ترقی پذیر رکن کی حیثیت سے چین نے ہمیشہ کثیر الجہت تجارتی نظام کی پرزور حمایت کی ہے، حقیقی معنوں میں کثیر الجہتی پر عمل کیا ہے اور ڈبلیو ٹی او کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کو خلوص کے ساتھ پورا کیا ہے۔ یہ رویہ ایک بڑے ، ذمہ دار ملک کا رویہ ہے جو تمام دنیا کے لیے یکساں خوشحالی نیز انسانیت کا ایک مشترکہ مستقبل تشکیل دینے کے لیے پر عزم ہے اور جو نتائج دنیا کے سامنے آئے ہیں اسی کی بنیاد پر مزید کئی ممالک بھی اس سفر میں اس کے ہم قدم ہو رہے ہیں جو کہ کثیر الجہت تجارتی نظام پر اعتماد کرنے اور اس کی حمایت کی علامت ہے۔