سلامتی کونسل کا اجلاس: روس اور چین نے غزہ سے متعلق امریکی قرار داد ویٹو کر دی
روس نے قرارداد کو رفح حملے کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دیدیا
روس اور چین نے غزہ کے بارے میں سلامتی کونسل میں امریکا کی زیر قیادت قرارداد کے مسودے کو ویٹو کر دیا ہے ۔
ماسکو نے واشنگٹن کی قرارداد کو منافقانہ تماشا قرار دیا ہے۔اسرائیل کے اہم اتحادی امریکا نے، جس نے ماضی میں جنگ بندی کے مطالبے کو ویٹو کیا تھا، ایک قرارداد پیش کی جس میں امریکا نے فوری اور پائیدار جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے اور 7 اکتوبر کے حماس کے حملوں کی مذمت کی ہے۔
غزہ میں فوری طور پائیدار جنگ بندی کے لیے امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد پر جمعہ کو ووٹنگ ہوئی اور اسے مسترد کردیا گیا۔
روس نے کہا کہ یہ قرارداد رفح پر حملے کا جواز مہیا کرنے کے لیے تھی۔گذشتہ پانچ ماہ کے دوران غزہ میں جنگ بندی کی امریکہ مخالفت کرتا رہا ہے تاہم اب بظاہراس کے موقف میں تبدیلی آئی اور اس نے جنگ بندی کی بات کی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق قرارداد کے مسودے میں میں فوری اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا جو تقریبا چھ ہفتے تک جاری رہنے تھی، مسودے میں کہا گیا کہ اس دوران شہریوں کو تحفظ مل سکے گا اور امدادی سامان ان تک پہنچایا جا سکے گا۔تاہم قرارداد میں حماس کے خلاف بھی سخت الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔
امریکی مندوب لنڈا تھامسن نے کہاکہ سلامتی کونسل اس قرارداد پر ووٹ دے جس میں ظالمانہ حملوں اور جنسی تشدد پر حماس کی مذمت کی گئی ہے اور جس میں واضح کیا گیا ہے کہ تمام سویلین اسرائیلی اور فلسطینی تشدد کے بغیر رہنے کے قابل ہونے چاہیں اور یہ کہ غزہ میں زمینی حملے سے شہریوں کو خطرہ ہے۔
جمعہ کو قرارداد رائے شماری کے لیے پیش کی گئی تاہم چین اور روس نے اسے ویٹو کردیا۔
الجیریا نے بھی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جب کہ گیانا نے رائے کا حق استعمال کرنے سے گریز کیا۔ گیارہ دیگر ممالک نے قرارداد کی حمایت کی۔
اقوام متحدہ میں روسی مندوب نے کہاکہ قرارداد میں اسرائیل کو رفحہ میں فوجی آپریشن کے لیے گرین لائٹ دی گئی ہے۔یاد رہے کہ اسرائیلی حکومت مصری سرحدی کے ساتھ رفح کے علاقے میں ایک بڑے زمینی آپریشن کی کوشش کر رہی تھی۔
غزہ کی پٹی کے دیگر تمام علاقوں میں شدید فضائی اور زمینی حملوں کے بعد یہ آخری جگہ ہے جہاں فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
الجیریا کے مندوب نے کہاکہ قرارداد کے میں ایسا کچھ نہیں تھا جس سے فلسطینیوں کی تکالیف کا ازالہ ہو سکے۔
عرب ٹی وی الجزیرہ کے مطابق روس اور چین کا مطالبہ تھا کہ غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی جائے اور اسے حماس کی قید میں موجود اسرائیلیوں کی رہائی سے مشروط نہ کیا جائے۔
چین نے سب سے آخر میں اپنا ردعمل دیا۔ چینی اندوب نے کہاکہ امریکی قرارداد عالمی توقعات سے بہت نیچے ہے، امریکی مسودے میں جنگ بندی کے لیے شرائط درج کی گئی ہے جو لوگوں کے قتل کے لیے گرین لائٹ دینے کے مترادف ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔
چین نے کہاکہ سلامتی کونسل غزہ میں جنگ بندی پر پہلے ہی بہت تاخیر کر چکی ہے۔امریکی قرارداد ناکام ہونے کے بعد فرانسیسی صدر ایمائنیول میخون نے اعلان کیا کہ اب فرانس ایک نئی قرارداد منظور کرانے کیلئے امریکیوں، یورپیوں اور عربوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
اس سے قبل اقوام متحدہ میں امریکی ترجمان نیٹ ایوانز کا کہنا تھا کہ قرارداد پر امریکہ نے پندرہ رکنی سیکورٹی کونسل کے رکن ممالک کے ساتھ مذاکرات کے کئے ادوار کیے، قرارداد کو امریکہ، مصر اور قطر کی حمایت حاصل ہے۔
سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کی منظوری کیلئے کم ازکم 9 ووٹ درکار ہوتے ہیں اور یہ بھی لازم ہوتا ہے کہ پانچ مستقل اراکین امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس اور چین میں سے کوئی بھی اسے ویٹو نہ کرے۔
قرارداد کے معاملے پر امریکہ اسرائیل کے ساتھ بھی رابطے میں تھا۔جس وقت قرارداد پر رائے شماری ہوئی اس سے کچھ دیر بعد امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی اور اسرائیلی وار کابینہ کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔