تحریر: سارا افضل
ویٹو کا بے دریغ استعمال، انسانی حقوق پر دہرے معیار کی ایک اور بدنما مثال
"اقوام متحدہ مفلوج ہو چکا ہے اور سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کی قرارداد کی ناکامی پر افسوس ہے”۔ یہ الفاظ ہیں اقوامِ متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کے, اس ادارے کے سربراہ کے جو عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے اقوامِ عالم کو اکٹھا کر کے امن کا راستہ تلاش کرنے کے لیے اقدامات اختیار کرتا ہے اور ۸ دسمبر کو بھی مشرق وسطی میں قیامِ امن کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۹۹ کے تحت اسی ادارے کی سلامتی کونسل نےایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔
آرٹیکل۹۹ کے تحت اقوامِ متحدہ کا سربراہ کسی بھی ایسے معاملے کی طرف توجہ دلوا سکتا ہے جو ان کی رائے میں بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔۲۰۱۷ میں عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلاموقع ہےجب انتونیو گوتریس نےاس آرٹیکل کا استعمال کیاہے۔اجلاس میں اقوامِ عالم کے سامنے جو قرارداد پیش کی گئی اس میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کےساتھ ساتھ امداد کی رسائی کا مطالبہ کیاگیاتھا ۔
قرارداد کے حق میں ۱۳ممالک نے ووٹ دیا تاہم برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جب کہ امریکا نے یہ کہہ کر قرارداد کو ویٹو کر دیا کہ یہ قرارداد ‘حقیقت سےہٹ کر’ ہے اور اس سےحماس دوبارہ منظم ہونے اور اسرائیل کےخلاف کیےگئے۷ اکتوبرجیسےحملوں کو دہرانے کے قابل ہوجائےگا۔
قطر میں دوحہ فورم سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ "اس فیصلے پرعمل درآمد کروانے میں ناکامی پر ادارے کے اختیارات اور ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے، تاہم میں وعدہ کر تا ہوں کہ میں ہمت نہیں ہاروں گا”۔قطر کے وزیر اعظم نے بھی اسرائیل اور حماس پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری رکھنے کا کہا ہے۔
گزرے ہفتے میں قطر کی ثالثی میں ہونے والے عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت درجنوں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی تھی۔
ویٹو کی طاقت کے اس بے دریغ استعمال کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی ہے اور تمام بڑے ، ذمہ دار ممالک نے اس عمل پر افسوس کرتے ہوئے امن کے لیےکوششوں کا سلسلہ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے بھی امریکی حکومت کی منافقت اور دوہرے معیار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کو ویٹو کرنے پر چین کو بے حدمایوسی اور افسوس ہے۔
دو ماہ سے جاری یہ تنازع ان گنت ہلاکتوں اور تباہی کا سبب بنا ہے ، فوری جنگ بندی کسی بھی حل کی جانب بڑھنے کی پہلی شرط ہے اور اس کے حوالے سے ‘کوئی بھی منفی رویہ’ ‘ناقابل قبول’اوراسکےخلاف کوئی بھی جواز ‘کمزور’ ہے۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کےمطابق۷ اکتوبر سے اب تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں تقریبا اٹھارہ ہزار فلسطینی ہلاک اور۴۷ ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوچکے ہیں جن میں۴ ہزار سےزائدخواتین اور۷ہزار سے زائد بچےشامل ہیں۔ غزہ کے ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد۲۶۲فیصد تک پہنچ گئی ہے اور طبی اداروں میںضروری طبی سازو سامان کی قلت ہوچکی ہے،پناہ گزینوں کے کیمپس میں اب تک ۱۵متعدی بیماریوںکے ۳ لاکھ سے زائد کیسزکی نشاندہی ہو ئی ہے۔وسیع پیمانے پر مسلسل جاری شدید نوعیت کے بری ، بحری اور فضائی حملوں میں اب تک مبینہ طور پر ۳۳۹ تعلیمی مراکز، ۲۶اسپتالوں، ۵۶ ہیلتھ کیئر سینٹرز ، ۸۸ مساجد اور تین گرجا گھروں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
غزہ میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے مرکزی امدادی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہےکہ تنظیم کو مسلسل بمباری، ناکافی امداد اور پناہ گزین کیمپس میں لوگوں کی بہت زیادہ تعداد کی وجہ سے مسائل سے نمٹنے میں ناکامی ہو رہی ہے۔
حملوں کی شدت اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے جہاں امداد پہنچنی چاہیے وہاں تک رسائی محدود ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کی جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے امریکی فیصلے کی مذمت کی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر لوئس چاربونیو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کو اسلحہ اور سفارتی تحفظ فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا جس سے غزہ میں فلسطینی شہری آبادی کو اجتماعی سزا دینا بھی شامل ہے، امریکہ کے لیے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا خطرہبن رہا ہے۔آکسفیم امریکہ کے صدر اور سی ای او ایبی میکس مین نے بھی اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ویٹو انسانی حقوق کے معاملات پر امریکی ساکھ کے تابوت میں ایک اور کیل ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل کے مطابق قرارداد کو ویٹو کر کے امریکہ نے غزہ میں ہلاکتوں کی ہوشربا تعداد اور وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی کے باوجود لوگوں و درپیش مصائب و مشکلات کو نظر انداز کیا ہے۔انہوں نے اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے پر امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ عمل مشرق وسطی کی تباہی میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
اس وقت بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کے تمام علاقوں میں زمینی کارروائی جاری ہے اور اس نے وہاں موجود ۲۰ لاکھ شہریوں کو المواصی میں ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بنائے گئے زون‘ میں جانے کی ہدایت کی ہے۔یہ زون صرف آٹھ اعشاریہ پانچ مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو سائز میں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے بھی چھوٹا ہے۔المواصی دراصل بحیرہ روم سے متصل ایک پتلی سی پٹی ہے جہاں پر آباد علاقہ بہت کم ہےاورمحض چند عمارات ہیں ۔یہاں زیادہ تر ریت کے ٹیلے ہیں اور تھوڑی سی زمین ہے جو کاشت کاری کے قابل ہے ۔
اس صورتِ حال پر عالمی ادارۂ صحت کے سربراہ ٹیڈرس ادھانوم گبرئیسئس نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو اتنے کم رقبے میں آباد کرنے سے وبائی امراض کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھے گا، پہلے ہی یہاں عوام کی صحت پر پڑنے والے اثرات تباہ کن ہیں اور غزہ کا نظامِ صحت تباہی کے دہانے پر ہے۔ غزہ میں ہر ۷۵۰ افراد کے لیے ایک غسل خانہ اور ڈیڑھ سو افراد کے لیے ایک بیت الخلا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے مطابق غزہ میں موجود ۳۶ ہسپتالوں میں سے صرف ۱۴ فعال ہیں جن میں سے دو شمال اور ۱۲ جنوب میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیئر امدادی اہلکار پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے وہاں کی آدھی آبادی فاقہ کشی پر مجبور ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے کہا کہ غزہ میں ضروری سامان کا صرف ایک حصہ ہی داخل ہو پا رہا ہے جس کی وجہ سے دس میں سے نو لوگوں کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے۔غزہ کے جنگی حالات نے سامان کی رسدو ترسیل کو ’تقریباً ناممکن‘ بنا رکھا ہے۔
غزہ کے لوگوں تک امدادی سامان پہنچانے کے لیے مصر کی سرحد سے متصل صرف رفح کراسنگ کھلی ہے جس سے غزہ تک محدود مقدار میں امداد پہنچ سکتی ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں موجود اس ‘خوف، افراتفری اور مایوسی’ کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھے جس سے ان کا غزہ کے دورے کے دوران سابقہ پڑا۔گوداموں میں سب کچھ تلپٹ ، امداد کی تقسیم کے مقامات پر بھوک سے نڈھال ہزاروں مایوس لوگوں کے ہجوم، سپر مارکیٹس کے خالی شیلف،پناہ گاہوں میں لوگوں کی گنجائش سے زیادہ بھیڑخستہ حال باتھ رومز اورطبی امداد کی کمی کی جو صورتِ حال ان کے سامنے آئی ہے وہ ان کی سوچ سے بڑھ کر ہے۔
گزشتہ ماہ بین الاقوامی دباؤ اور سات روزہ عارضی جنگ بندی سے غزہ کے علاقے میں اشد ضروری امدادی اشیا کی ترسیل کی اجازت ملی تھی لیکن ورلڈ فوڈ پروگرام جو اس تمام صورتِ حال کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہے اور تمام تر زمینی حقائق کو جانتا ہے اس کا اصرار ہے کہ غزہ کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور ایک بڑے انسانی بحران سے بچنے کے لیے اب دوسری سرحدی کراسنگز کو کھولنے کی ضرورت ہے۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں جب تمام دنیا کےممالک ،سربراہان ،ادارے حتی کہ عام لوگ بھی قیام امن کے لیے اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں ، ہر اس راستے کو چن رہے ہیں جس پر چل کر امن قائم کیا جا سکے اور انسانی تاریخ کے اس سیاہ باب کو یہیں پر ختم کیا جائے ایسے میں امن کی اس کوشش کو "ویٹو” کے ہتھیار نے ایسی کاری ضرب لگائی کہ جس سے پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔
ویٹو کے اس غیر ذمہ دارانہ استعمال نے جہاں بہت سے سوالات اٹھائے ہیں وہیں حقوقِ انسانی سے متعلق دہرے معیار اور کھوکھلے دعوے بھی بے نقاب ہوئے ہیں ۔ اس اجلاس میں جہاں ایک طرف دنیا نے ۱۳ مالک کو امن کی شدید خواہش اور اس کے حصول کے لیے متحد ہوتے دیکھا تو دوسری طرف اس خواہش کو "ویٹو” کرنے والوں کے تنہا کھڑے رہ جانے کا منظر بھی دنیا کے سامنے ہے جو متعدد ممالک کو آنے والے وقت کے لیے کئی معاملات پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔