تحریر : سارہ افضل
قابلِ تجدید توانائی کا "گلوبل لیڈر”، چین
چین نے حالیہ برسوں میں مضبوط پالیسی اقدامات اور جامع سپلائی چینز کی مدد سے، قابل تجدید توانائی میں غیر معمولی ترقی کی ہے، عالمی سطح پر تنصیبی صلاحیت کی درجہ بندی میں چین سرِ فہرست ہے.سالہا سال سے جاری ترقیاتی کاموں کے تسلسل کے باعث ،آج چین پون توانائی اور شمسی توانائی کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ، نیز قابل تجدید توانائی میں سب سے بڑا مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار ہے۔
گزشتہ دس سالوں میں، چین میں قابل تجدید توانائی کی پیداوار کی کل تنصیبی صلاحیت 1.1 بلین کلوواٹ تک بڑھ چکی ہے اور یہ دنیا میں پن بجلی،پون و شمسی توانائی اور بائیوماس کی پیداواری صلاحیت کے حوالے سے سر فہرست ہے ۔چین کی پون و شمسی توانائی کی مشترکہ تنصیبی صلاحیت ۶۷۰ ملین کلو واٹ تک پہنچ گئی ہے، جو ۲۰۱۲ سے تقریبا ۹۰ گنا زیادہ ہے. چودھویں پانچ سالہ منصوبے (۲۰۲۱-۲۵) کی مدت کے دوران ، چین کی قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت مجموعی طور پر ۵۰ فیصد سے زیادہ ہونے کی توقع ہے جب کہ ہوا اور سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کی پیداواری صلاحیت کو دوگنا کردیا جائے گا جس سے قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں اضافے کے حوالے سے چین کا "گلوبل لیڈر” کا کردار مزید مضبوط ہو گا ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تیز رفتار ترقی کی ایک وجہ مقامی مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر طلب کی وجہ سے ” کلین انرجی ” کی تنصیبات کو فروغ دینے میں چین کے بے مثال اقدامات اور پالیسیز ہیں جن کی بنا پر اس ضمن میں قابلِ قدر نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ ریاستی ملکیت والے گرڈ آپریٹرز نے بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوششیں کی ہیں کہ قابل تجدید توانائی ضائع ہونے کے بجائے استعمال میں لائی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین ہوا، فوٹووولٹک، ہائیڈرو اور بائیوماس پاور کی تنصیبی صلاحیت میں سب سے آگے ہے،
کیونکہ یہ ایک "سبز ترقی” کے تصور کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اس لیےمستقبل قریب میں چین میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں مستحکم نمو دیکھنے کو ملے گی ،خاص طور پر شمسی توانائی کے حوالے سے وسیع پیمانے پر مزید تنصیبات دیکھی جائیں گی۔
اس شعبے میں چین کی تیز رفتار ترقی نے ملٹی نیشنل کمپنیز کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ شیل پی ایل سی، ایس اے بی آئی سی اور ہنی ویل نے حالیہ برسوں میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ توانائی اور کیمیکلز کی بڑی عالمی کمپنیز ، پیٹرو کیمیکلز، ہائیڈروجن، کار چارجنگ اسٹیشنز اور کاربن کے استعمال اور ذخیرہ کرنے ، یا سی سی یو ایس جیسے ذیلی شعبوں کی وسیع اقسام کا احاطہ کرنے والے مقامی منصوبوں کو تیار کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں شیل پی ایل سی نے حالیہ برسوں میں چین کی قابل تجدید توانائی کی مارکیٹ میں مستقل سرمایہ کاری کی ہے۔ کمپنی کے بلیو پرنٹ کا ایک حصہ، ایشیا میں شیل کا پہلا ہائیڈروجن ری فیولنگ نیٹ ورک بنانا ہے جو کہ سرکاری ملکیتی انٹرپرائز شینرجی گروپ کمپنی کے تعاون سے شنگھائی میں تعمیر ہوگا۔ کمپنی کے مطابق ، اس کا اگلے پانچ سالوں میں شنگھائی اور دریائے یانگسی ڈیلٹا کے علاقے میں چھ سے دس ہائیڈروجن ری فیولنگ سٹیشنز کی تعمیر کا ارادہ ہے ، جو ۲۰۳۰ تک ۳۰سٹیشنز تک بڑھ جائیں گے ۔ کیونکہ کمپنی کا ماننا ہے کہ۲۰۳۰ تک "کاربن پیک” اور ۲۰۶۰ تک کاربن نیوٹرل کا ہدف حاصل کرنے کے لیے چین کا ساتھ دینا ضروری ہے ۔
اس کے علاوہ امریکی توانائی کمپنی ایگزون موبل نےصوبہ گوانگ دونگ میں سی سی ایس مرکز
) کاربن کیپچر اینڈ سٹوریج ہب ( تیار کرنے کے لیے چائنا نیشنل آف شور آئل کارپوریشن اور شیل پی ایل سی کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا ہے . یہ چین کا پہلا بڑا غیر ملکی سی سی ایس مرکز ہے جو سالانہ دس ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو نمایاں طور پر کم کرے گا اور اس علاقے میں کاروباری اداروں کی ڈی کاربنائزیشن کی ضروریات کو پورا کرے گا۔
ان تمام اقدامات اور منصوبہ جات کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ چین کے توانائی کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضاففہ ہوگا۔سالوں سے قابل تجدید توانائی کی پیداوار میں سرِ فہرست ہونے کی وجہ سے چین کے پاس ایک ایسی مارکیٹ ہے جس کا مقابلہ کوئی دوسرا ملک نہیں کرسکتا ہے۔ ان کوششوں کی بدولت، چین نے گزشتہ دس سالوں کے دوران قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کے لیے ایک مکمل صنعتی نظام تیار کیا ہے.
اب چین ناصرف میگاواٹ کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے ہائیڈرولک ٹربائن سیٹ خود ڈیزائن اور تیار کرتا ہےبلکہ ملک میں قابل تجدید توانائی کی تیز رفتار ترقی نے عالمی طور پر روزگارکے موقع فراہم کیے ہیں ۔ حال ہی میں قابل تجدید توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ قابل تجدید توانائی اور ملازمتوں کے سالانہ جائزے کے مطابق ، گزشتہ سال دنیا بھر میں اس شعبے سے متعلقہ ملازمتیں بارہ اعشاریہ سات ملین ہو چکی تھیں ، جس میں کوویڈ- ۱۹ اور توانائی کے عالمی بحران کے طویل اثرات کے باوجود چین کا حصہ مجموعی طور پر تقریبا نصف ہے۔گزشتہ سال، چین میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں پانچ اعشاریہ چار ملین افراد کو ملازمت دی گئی تھی، یہ تعداد ۲۰۲۰ میں چار اعشاریہ سات ملین تھی .
یہ تمام اعدادو شمار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ چین کی ترقی نہ صرف اس کے اپنے لوگوں کے لیے بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ترقی کا موقع فراہم کرتی ہے ۔
سرمایہ کاروں کی توجہ نہ صرف چین کی بڑی مارکیٹ پر ہے بلکہ کاروبار کے لیے سازگار ماحول اور جدت و اختراع پر مبنی شعبے بھی ایک اہم محرک ہیں۔ چین کی ترقی میں "سبز ترقی” کا عنصر اس کی ترقی کی رفتار اور چین کےعالمی کردار کو مزیداہم بناتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بڑی بین الاقوامی کمپنیز اور اہم عالمی ادارے جب چین کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو ” کلین انرجی "، ” سبز ترقی ” ، "کاربن پیک” اور "کاربن نیوٹرل ” کے اہداف کے حصول کے لیے اختیار کردہ پالیسیز اور وملی اقدامات کی نہ صرف تعریف کی جاتی ہے بلکہ ان میں اپنا حصہ ڈالنے پر فخر بھی کیا جاتا ہے،جو کہ "کلین انرجی "اور "قابلِ تجدید توانائی” کے شعبے میں چین کے "عالمی رہنما” ہونے کا اعتراف ہے ۔