بلیو بک کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی ۔ رحمن ملک
بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم عباد الرحمن خیبیر اینجسی میں ڈرون حملے میں ہلاک ہوا
اسلام آباد (نیوزپلس) سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رحمان ملک نے اہم انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تمام دھشتگردوں ملزموں کی شناخت کیا گیا، گرفتار کیا گیا، ٹرائل کیا گیا اور سزا بھی سنائی گئی سوائے ان کے جو پراسرار طور پر مارے گئے اور وہ جو مفرور ہیں۔
رحمن ملک نے اپنی کتاب "محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ” کی تقریب رونمائی میں کرتے ہوئے بتایا کہ "عباد الرحمان” عرف چٹان کو مارنے کے لیے کس طرح واحد ڈرون خیبر ایجنسی میں مارا گیا جو کہ قتل کے منصوبے کا مرکزی سرغنہ تھا۔
سابق وزیر اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 14ویں یوم شہادت کے موقع پر ان کے قتل کے حوالے سے 28 انتہائی اہم ابواب اور لیاقت باغ کے واقعے میں ملوث کرداروں کی تمام تفصیلات پر مشتمل ایک کتاب کی شکل میں مرتب کیے ہیں۔ کتاب انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع کیا گیا ہے جو عوام کے لئے مفت ہیں اور اسکی باقاعدہ رونمائی آج ایک پریس کانفرنس میں کی گئی۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور لیاقت باغ سانحہ کے شہداء کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ یہ غلط تاثر دیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے پانچ سالہ دور میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید قتل کیس کی تحقیقات میں ناکام رہی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے تاثرات بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہیں اور اس کتاب کے بعد ان کی نفی ہو جاتی ہے۔
رحمان ملک نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تمام دھشتگردوں ملزموں کی شناخت کیا گیا، گرفتار کیا گیا، ٹرائل کیا گیا اور سزا بھی سنائی گئی سوائے ان کے جو پراسرار طور پر مارے گئے اور وہ جو مفرور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منصوبہ سازوں، ہینڈلرز اور سہولت کاروں کے پراسرار قتل کے ساتھ ساتھ جرم میں ان کے مخصوص کردار اور ان کے پروفائلز کی تفصیلات اس کتاب میں درج ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ تفتیش کاروں کے ذہنوں میں ایک معمہ بنی ہوئی ہے کہ عباد الرحمان عرف چٹان کو مارنے کے لیے کس طرح واحد ڈرون خیبر ایجنسی میں مارا گیا جو کہ قتل کے منصوبے کا مرکزی سرغنہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو سیکورٹی فراہم کرنا اس وقت کی حکومت کی ذمہ داری تھی جس میں وہ ناکام رہے اور میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ سیکورٹی کے سخت انتظامات کیوں نہیں کیے گئے اور بلیو بک کے مطابق سیکورٹی کیوں مہیا نہیں کیاگیا۔ رحمان ملک نے سوال اٹھایا کہ شہادت کے فوری بعد کرائم سین کو کیوں اور کس کے کہنے پر دھویا گیا۔
رحمان ملک نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیس پنجاب پولیس سے ایف آئی اے کو منتقل کیا تھا اور کیس کی مزید تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جو ایف آئی اے اور پولیس کے سینئر افسران پر مشتمل تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر مشکلات اور خفیہ قوتوں کے باوجود جنہوں نے تفتیش میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، پولیس اور ایف آئی اے کے بہادر افسران شواہد اکٹھے کرنے، ملزمان کو گرفتار کرنے اور انصاف کے کٹہرے میں لانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے کہا، "ملزمان کو ایک مجاز عدالت نے مجرم قرار دیا اور سزا سنائی لیکن بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ نے ان کی ضمانت منظور کر لی جن میں ٹی ٹی پی کے دھشتگرد عبدالرشید، اعتزاز شاہ، رفاقت حسین، حسنین گل اور شیر زمان شامل تھے اور ان سب کا کردار اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ دوسرا خودکش حملہ آور اکرام اللہ جو جائے وقوعہ سے فرار ہو کر مکین بھاگ گیا جہاں وہ بیت اللہ محسود کے ساتھ اسکے ہلاکت تک رہا اور اس وقت افغانستان میں ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دو قاتلانہ حملوں میں بچ گیا ہے اور یہ بھی ایک معمہ ہے کہ جب اکرم اللہ نے بی بی سی کو انٹرویو دینے کا فیصلہ کیاکہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے کچھ حقائق سے پردہ اٹھائے تو طے شدہ انٹرویو سے ایک دن قبل ان پر حملہ کیا گیا جس میں وہ بچ گیا مگر انٹرویو نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انہوں نے وزارت داخلہ کو چار خطوط لکھے ہیں کہ اکرام اللہ کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے افغانستان سے درخواست کی جائے اور ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی کو بھی جو کتاب کے مصنف ہیں جس میں انہوں نے بے نظیر بھٹو کے قتل کا اعتراف کیا ہے کو بھی پاکستان لایا جائے تاکہ کیس میں پیشرفت ہوسکے۔
سینیٹر رحمان ملک نے انکشاف کیا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے کمرہ نمبر 96 میں مذکورہ مدرسے کے سابق طالب علم عباد الرحمان نے تیار کی تھی تھا جو ٹی ٹی پی سربراہ بیت اللہ محسود سے مذکورہ مدرسے میں خودکش بمبار لائے تھے اور رات کمرہ نمبر 96 میں رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے ان طلباء کے مدرسے سے تصاویر، پتے اور والدین کے ساتھ اصل داخلہ ریکارڈ اکٹھا کیا جنہوں نے سازش کی اور پھر اس سازش کو انجام دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملزم نصراللہ جو 26 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں خودکش حملہ آور لایا تھا اور منصوبہ ساز عباد الرحمان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے الگ الگ کارروائیوں میں مارے گئے۔
سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ یہ کیس اب ہائی کورٹ میں فیصلے کے لیے زیر التوا ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ایک دن ان کی قائد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے عدالتی قتل پر انصاف ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ایک عظیم لیڈر تھیں اور انکی شہادت سے صرف پیپلز پارٹی کا نہیں پورے ملک کا نقصان ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری مشکل وقت میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو شہید کا مشن لیکر آگے بڑھ رہے ہیں اور جیالے اپنی قیادت کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں، آنے والا وقت انشاءاللہ پیپلز پارٹی کا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں رحمان ملک نے کہا کہ آصف علی زرداری جب کوئی سیاسی چال چلتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں اور حکومتی وزرا کی بوکھلاہٹ بتا رہی ہے دال میں کچھ کالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوازشریف شریف کیوں آ رہے ہیں، کس کے کہنے پر آ رہے ہیں یہ وہی بتا سکتے ہیں اور کیا قانونی تقاضے پورے کئے جاتے ہیں یا نہیں۔
آخر میں انہوں نے افغانستان کی طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ اکرام اللہ کو پاکستان کے حوالے کرے کیونکہ وہ بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں مطلوب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دہشت گردوں نے ہمیں گہرے زخم دیئے ہیں اور اے پی ایس پشاور کے معصوم بچوں سمیت ہمارے پیاروں کو قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے پاکستان میں امن کی بحالی کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔