رانا تصدق حسین
پنجاب بھر میں جرائم کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں جرائم نہیں بڑھ رہے اور درحقیقت جرائم نہیں بڑھ رہے بلکہ پولیس کے داغ داغ، رشوت آلودسیاہ چہرے پر طمانچوں کے تمغے ہیں کہ مسلسل بڑھ رہے ہیں ، وہ کرپٹ اوررشوت آلود چہرہ جس سے لوگوں کو پہلے بھی کسی خیر کی توقع نہیں تھی اب کمزوروں مظلوموں اور غریبوں، جیلوں میں ناکردہ جرائم کی سزائیں بھگتتے اپنی جوانیاں برباد کر نے والوں کی بد دعائوں یاشاید تھانوں میں ذلیل ہوتے عوام کی آہوں کے نتیجے میں اپنی وقعت وقار رعب و دبدبہ سب کھو چکا ہے منظم ہوں یا غیرمنظم جرائم انہیں روکنا پولیس کی ذمہ داری ہے مگریہاں تو ان جرائم کی سر پرستی اور پشت پناہی کی داستانیں پولیس کے اپنے ماتھے پرصاف صاف پڑھی جاسکتی ہیں ، منشیات فروشی ، ڈکیتیاں ، قتل وغارت ،قحبہ خانے ،قبضہ مافیا، جوئے کے اڈے چلانے سمیت کوئی جرم ایسا نہیں جس میں پولیس خود شریک نہیں ، اسلئے جرائم پیشہ عناصر کوبھی پولیس کا کوئی ڈر خوف سرے سے ہی باقی نہیں رہا کہ پولیس والے بھی انکے اپنے ہی آدمی ہیں، پنجاب بھر میں ڈکیت گینگ دندناتے پھر ر ہے ہیں کوئی پوچھنے والا تک نہیں، پولیس کے سارے ناکے عام آدمی کو ہراساں کرنے اور شریف شہریوں کی تذلیل کے لئے رہ گئے ہیں جبکہ ڈاکوؤں نے پولیس والوں کے اپنے گھر تک بھی کھنگال ڈالے ہیں ، چھوٹے موٹے ملازمین کی بات نہیں اب توڈاکو ایس ایچ اوز کے گھروں میں گُھس کر وارادتیں کر ر ہے ہیں ،معصوم بچے بچیوں کے ساتھ درندگی ،عصمت دری، قتل وغارت ، ڈکیتیاں ہیں کہ رکنے کانام نہیں لے رہیں مگر آسمان نہیں ٹوٹتا، زمین نہیں پھٹتی ، کوئی وزیر مشیراستعفیٰ نہیں دیتا اور نہ پولیس افسران کی گلدستوں سے ستائش کرنے والے بے ضمیر پولیس ٹائوٹوں کے کانوں پر ہی کوئی جوں رینگتی ہے مقام افسوس یہ ہے کہ عوام پولیس سے اب تحفظ نہیں پناہ مانگتے ہیں۔
تازہ واقعہ یہ ہے کہ قلعہ دیدار سنگھ کی ننھی بچی سکول پڑھنے گئی اور اغواء کرلی گئی بعد میں اسکی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی ، معصوم بچی کو کیا معلوم تھا کہ وہ جس ملک میں رہتی ہے وہ ہے تو پولیس سٹیٹ اور یہاں پولیس کی مرضی کے بغیر کوئی چھابڑی تک نہیں لگا سکتا مگر پولیس لوگوں کی عزت اور جان کی حفاظت کے قابل نہیں ہے ناانصافی ظلم زیادتی اور جبر کا نتیجہ ہے کہ اب قانون کا کوئی احترام باقی رہا ہے نہ خوف ، وہ بچی جو سکول میں علم حاصل کر کے اپنا روشن مستقبل تلاش کرنے گئی تھی ،وہ اس اندھے بہرے اور بے حس معاشرے کے ا ن گندے کرداروں کا نشانہ بن گئی جنہیں والدین اساتذہ اور دیگر رشتے دار اپنی انکھوں کے سامنے جانور بنتے دیکھتے اور خاموش رہتے ہیں اپنے گھروں میں موجود ان نفسیاتی مریضوں کو جاننے پہچاننے کے باوجود اور انکا کوئی علاج نہیں کراتا ،نفسیاتی بیماریوں کے علاج کا رواج ہی نہیں ہے ،والدین اور اساتذہ کے پاس اب بچوں کی تربیت کے لئے وقت نہیں بچا،بچوں کے عیوب پر پردہ ڈالتے والدین یہ نہیں سوچتے کہ اگر پہلی سٹیج پر بچے کو سختی سے نہ روکا گیا تو وہ معاشرے کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، جہاں تک اداروں کاتعلق ہے انہیں پورے کے پورے سیاست میں جھونک دینے کا نتیجہ ہے کہ انٹرنیٹ پر جنسی ہوس کو بڑھا دینے والا مواد ان قانون نافذ کرنے والے نااہل اداروں سے کنٹرول نہیں ہو رہا ، ہزاروں ویب سائٹس ہیں جو بلاک نہیں کی جا رہیں سیاسی اکاؤنٹس تو دھڑا دھڑ بند کئے جاتے ہیں لیکن جنسی ہیجان برپا کر دینے والااورایک انسان سے درندہ بنانے والا مواداتنی آسانی سے دستیاب ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ، حکومت ، ادارے ، انتظامیہ پولیس ، علماء کرام والدین ، اساتذہ اور اہل قلم سمیت کوئی بھی اپنی ذمہ داری درست طریقے سے ادا نہیں کرر ہا ، مفتی عزیز نے اہل علم کو بھی شرمندہ کردیا ہے ، عوام کی جیبیں کاٹنے والے ادارے کے نااہل اور بدتمیزپولیس افسران جنہیں چھتر پڑنے چاہئیں انہیں جعلی عوامی خادموں اور بعض صحافیوں کی جانب سے گلدستے دینا ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے جیسا ہے معاشرے کی ایسی شکل بن گئی ہے کہ جہاں نہ صرف بچیاں اور بچے جنسی درندوں اور ذہنی مریضوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں کہ اب لاشیں بھی کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر ملتی ہیں ، پولیس کے ایکشن سے پہلے آپکا مرنا یا لٹ جانا ضروری ہے میں اکثر سوچتا ہوں کہ پولیس افسران جب پروٹوکول کے ساتھ جہاں بھر کا تکبر اور فرعونیت لئے سڑکوں پر فلیگ مارچ کرتے ہیں تو بے گناہوں معصوموں اور کسی نفسیاتی درندے کی تسکین کے نام پر مارے جانے والوں کے لواحقین کے سینے پر مونگ ہی تو دلتے ہیں، جن کے پیارے جدا ہو گئے،جن کی کمائیاں لٹ گئیں اور انہیں آج تک انصاف نہیں ملا، وہ آپکی اس جعلی شان وشوکت پر ” آخ تھو” کے سوا اورکیا کر سکتے ہیں ، آپکا جھوٹا طمطراق، رعب ودبدبہ اور جعلی کارروائیاں ، جعلی مقابلے معاشرے کے دکھوں کا مداوا نہیں ہیں ، محض حکومتی سیاستدانوں کی دعوتیں کر کے انکی صلح کروانے اور انہیں کھانے کھلانے سے آپکی ذمہ داریاں ادا نہیں ہو سکتیں ، ڈاکواب آپکے گھروں تک آگئے ہیں آپ عوامی نفرت سے بچنے کے لئے وردی کے رنگ بدلیں یا 3سال میں پنجاب کے 6آئی جی تبدیل کریں ،اس وقت تک کچھ نہیں ہوگاجب تک پولیس کوعوام کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوگی یہ جذبہ بیدار نہیں ہوگا تو قتل ڈکیتی عصمت دری جیسے واقعات نہیں رکیں گے معاشرے میں قانون کا احترام اور جرائم پیشہ عناصر پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کاخوف طاری نہیں ہوگا تو پولیس کے داغ داغ،رشوت آلود چہرے پر طمانچوں کے تمغے بڑھتے جائیں گے