اسلام آباد (نیوزپلس) پاکستان شوبز انڈستڑی کے معروف اداکار یاسر حسین کا کہنا تھا کہ ’میں کیوں اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا، صرف اس لیے کیونکہ میں ایک اداکار ہوں؟ مجھے صرف ایک بناوٹی خول میں رہنا چاہیے، سب کو ایسا لگنا چاہیے کہ اداکار تو ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے ٹی وی پر دکھتے ہیں؟‘ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا ۔
یاسار حسین نے کہا کہ اب راجیش کھنا اور محمد علی کا دور چلا گیا ہے جہاں امیتابھ بچن آج تک اسی ہیئرسٹائل کی وگ لگا رہے ہیں کیوںکہ شاید انھیں لگتا ہے کہ اگر ہیئر سٹائل تبدیل ہوا تو میں امیتابھ بچن نہیں لگوں گا۔‘
’میرا نہیں خیال ایسا ہونا چاہیے، لوگوں کے بال گرتے ہیں، دھوپ میں کرکٹ کھیلنے سے دو دن میں رنگت تبدیل ہو جاتی ہے اسی طرح آپ کے نظریات اور رائے بھی تبدیل ہوتی ہے۔‘
تاہم یاسر حسین عوام کی جانب سے آنے والی آرا کو اس شعبے کا ایک مشکل پہلو گردانتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سب آسان اس طرح ہے کہ آپ ایک پراجیکٹ کرتے ہیں اور سپرسٹار بن جاتے ہیں لیکن مشکل اس لیے کیونکہ میری طرح عوام بھی ایک رائے رکھتی ہے جو آپ کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔‘
تاہم یہ سب انھیں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے روکتا نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم انسان ہیں، زندہ ہیں بولیں گے، بات کریں گے۔‘
’جو بات میں کر رہا ہوں وہ بھی تو معاشرے میں ہو رہی ہے، میں سچ بول رہا ہوں جھوٹ تو نہیں بول رہا۔‘
پاکستان شوبز انڈسٹری بہت منافق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چھ ستمبر 2020 کو اچانک یاسر حسین کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا تھا۔ اس کی وجہ ان کی جانب سے ترک ڈرامہ سیریز ارطغرل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ’پاکستانی ارطغرل’ کے نام سے پوسٹ ہونے والی ایک تصویر پر ان کا ردِعمل تھا، جس میں انھوں نے لکھا ’ان کو کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ گھر کی مرغی دال برابر اور باہر کا کچرا بھی مال برابر۔‘
دراصل یاسر حسین اس ڈرامہ سیریز کے پاکستان میں پیش کیے جانے کے بعد سے اکثر ایسے بیانات دے چکے ہیں جس میں وہ پاکستان اور دیگر ممالک کے اشتراک سے بنائے گئے ڈراموں اور فلموں کے حوالے سے بات کرتے رہے ہیں جن کے ذریعے پاکستانی اداکاروں کو بھی دنیا بھر میں پہچانا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’آپ ارطغرل والی بات کی مثال ہی لے لیں۔ میں نے کہا تھا کہ ہمیں مشترکہ پروڈکشنز کرنی چاہیے اس میں ہمیں فائدہ ہو گا۔ ہمارے اداکاروں کو بین الاقوامی طور پر جانا جائے گے۔ اس میں کوئی غلط بات نہیں تھی۔‘
’آج ہمایوں سعید اور عدنان صدیقی ایسی پروڈکشنز کر رہے ہیں۔ آپ کو مل کر کام کرنا چاہیے، نہ کے ان کا چلا ہوا کام یہاں سستے میں چلانا چاہیے، یہ اچھی بات نہیں۔‘
وہ اس حوالے سے انڈسٹری کی ’منافقت‘ کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’صرف ہماری انڈسٹری ہی نہیں ہر ادارہ ایسا ہی ہے، سچ کہاں بولا جاتا ہے؟