بھارت میں اگرچہ متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر 2019 سے ہی مظاہرے جاری ہیں تاہم گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے بھارتی دورے کے دوران 24 فروری کو انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں اچانک مذہبی فسادات پھوٹ پڑے۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی میں مذہبی فسادات: ہلاکتوں کی تعداد 27 ہوگئی
مذہبی فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ہزاروں افراد نے نئی دہلی میں مذہبی شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کیا۔
متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد پر اچانک انتہاپسند اور شرپسند افراد نے حملہ کردیا جس وجہ سے مظاہرے مذہبی فسادات میں تبدیل ہوگئے اور دو دن میں کم سے کم 27 افراد ہلاک ہوگئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مذہبی فسادات میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد مسلمان ہیں تاہم کچھ ہندو اور دیگر مذاہب کے افراد بھی ہلاک ہوئے۔
نئی دہلی میں ہونے والے مذہبی فسادات پر عالمی برادری نے بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وہاں امن کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم تاحال وہاں حالات کشیدہ ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت میں مذہبی فسادات پر امریکی سیاستدانوں کا اظہار افسوس
متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے کینیڈین حکومت نے اپنے شہریوں کو بھارت نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔
کینیڈین حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ہدایت نامے میں شہریوں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ مذہبی فسادات کے شکار ملک بھارت کا دورہ نہ کریں۔
کینیڈین حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ہدایت نامے میں شہریوں کو تجویز دی ہے کہ اچھا ہوگا کہ وہ کچھ دنوں تک بھارت نہ جائیں لیکن اگر وہاں جانا بہت ضروری ہے تو کشیدگی والے علاقوں میں نہ جایا جائے۔
حکومت نے شہریوں کو تجویز دی ہے کہ اگر وہ مجبوری کی حالت میں بھارت جائیں تو بھی وہ بھارت کی بنگلہ دیش سے ملنے والی سرحدی ریاستوں کا دورہ نہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دہلی میں مذہبی فسادات پر بولی وڈ شخصیات کا اظہار افسوس
کینیڈین حکومت نے اپنے شہریوں کو بھارت کی ان ریاستوں کا دورہ کرنے سے بھی کریز کرنے کی ہدایت کی ہے جن کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔
حکومت نے شہریوں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے سے بھی روکا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسی شہری کا بھارت جانا انتہائی ضروری ہے تو بھی وہ خاص طور پر ’مقبوضہ کشمیر، بھارت کی پاکستان سے ملنے والے سرحدی اور بنگلہ دیش سے ملنے والی سرحدی‘ علاقوں کا دورہ بلکل نہ کریں۔
اسی طرح کینیڈین حکومت نے اپنے شہریوں کو بھارت کی ریاست ’ارونا چل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، مزورام اور ناگالینڈ‘ کا دورہ کرنے سے بھی روکا ہے۔