شاکراللہ
جدید دنیا میں ترقی کے پیمانوں میں سب سے اہم پیمانہ سائنس و ٹیکنالوجی کا ہے۔ چین نے سائنس و ٹیکنالوجی میں پچھلے ستر سالوں میں بالعموم اور 65سالوں میں بالخصوص نمایا ں کا میابیاں سمیٹی ہے ۔ تیرہ پانچ سالہ منصوبوں میں ہر منصوبے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کیلئے اہداف رکھے گئے ان اہداف کو احسن طریقے سے حاصل کیا گیا یہ ترقی انتہائی وسیع جامع اور ہمہ گیر ہے یہاں تیرہوِیں پانچ سالہ منصوبے 2016 تا 2020 کے دوران حا صل کی گئی چیدہ چیدہ کامیابیوں کا ذکر کیا جا تاہے ۔
اس وقت چین گلوبل انوویشن انڈیکس میں 14ویں نمبر پر ہے ۔ اور دنیا کا واحد درمیانی آمدنی والا ملک ہے جوگزشتہ کئی سال سے مسلسل پہلے تیس ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ ملک کی مجموعی ترقی میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے کا حصہ 2019 کے احتتام تک 5.59 فیصد ہوچکا ہے جس میں 2015 کے مقابلے میں 2.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور 2020 کے احتتام تک ہدف کے مطابق 60 فیصد ہوجائے گا ۔
تحقیق و ترقی کے میدان میں چین کی سرمایہ کاری میں مسلسلہ اضافہ ہ ہورہا ہے 2016 میں تحقیق وترقی میں سرمایہ کاری کی کل مالیت 56.1 ٹریلین یوان رہی جو 2019 میں بڑھ کر21.2 ٹریلین یوان ہوگئی جس میں سال بہ سال کے حساب سے 5.16 فیصد کا اضا فہ ہوا۔ اس طرح 2015سے موازنہ کیا جائے تو 2015 کے 4.1 ٹریلین یوان سے بڑھ کر یہ سرمایہ کاری 21.2 ٹریلین یوان ہوگئی اس طرح 2015کے مقابلے میں اس میں مجموعی طورپر 53فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ سرمایہ کاری ملک کی جی ڈی پی کی 23.2 فیصد بنتی ہے جو پندرہ یورپی ممالک سے زیادہ ہے ۔ بنیادی تحقیق پر56.133بلین خرچ کیے گئے جو کل اخراجات کے چھ فیصد بنتے ہیں۔ اسی طرح تحقیق و ترقی کے میدان میں اںٹر پرائزز کی سرمایہ کاری کی مالیت 69.1 ٹریلین یوان تک پہنچ گئی جو کل سرمایہ کاری کا 4.76 فی صد بنتی ہے اور اس میں سال بہ سال کے حساب سے 1.11 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اگر پیٹینٹس کی بات کریں تو 2019میں مقامی صارفین کو 321000تخلیقی پیٹنٹس دیے گئے یہ تعداد دنیا میں کسی بھی ملک کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔ 2015یہ تعداد 26300تھی2019 کے اختتام پر چین میں فی دس ہزار افراد پر تخلیقی پیٹنٹس کی تعداد3.13بنتی ہے۔ اسی طرح چین نے پیٹنٹ تعاون معاہدے کے تحت 59000 بین الاقوامی پیٹنٹس کیلئے درخواست دی یہ تعداد 2015کے مقابلے میں دوگنی ہے۔اور دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔اسی طرح چین تحقیقی مقالوں کی تعداد اور چینی مقالوں کی اعلی سطح پر دیے گئے حوالہ جات کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔
2019کے احتتام تک چین میں تحقیق اور ترقی کے میدان میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 61.4 ملین رہی جس میں 2015 کے مقابلے میں6.22 فیصد کا ضافہ ہوا ۔ ترقی اور تحقیق کے میدان میں کام کرنے والے افراد کی تعداد کے لحاظ سے چین دنیا میں مسلسل سات سال سے پہلے نمبر پر ہے ۔چین میں دنیا کے چوٹی کے 17 ٹیکنالوجی کلسٹرز موجود ہیں جن میں شینزن۔ہانگ کانگ۔ گونگ زو دنیا میں دوسرے نمبر پر اور بیجنگ چوتھے نمبر پر ہے ۔
اس عرصے کے دوران چین کی کامیابیوں میں تیانگونگ ۲ خلائی لیبارٹری کی کامیاب لانچنگ، پانچ سو میٹر عدسے والے ٹیلی سکوپ تیا نین کی تنصیب اور فعالیت، سیاہ مادے پر تحقیق کرنے والے سیٹلائٹ وو کانگ اور کوانٹم سیٹلائٹ مسیس کی لانچنگ، بیدو نیوی گیشن سسٹم کی تکمیل ، اور عالمی سطح پر خدمات کی فراہمی ، چانگ ء ۴ کی چاند کے پرلی طرف لینڈنگ اور تحقیق اور پانچ لاکھ فائیو جی بیس سٹیشنز کا قیام شامل ہیں۔ اسی طرح کووڈ۔۱۹ کی وبا پر قابو پانا اور اس کیلئے ۱۹ ویکسین کی تیاری کا عمل جن میں چار کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں ہیں وہ کامیابیاں ہیں جو چین نے طب کے میدان میں سمیٹی ہیں ۔
یہ صرف اعداد وشمار نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جن کے مظاہر چین کے چپے چپے میں ملتے ہیں وہ لوگ جو چین کا تھوڑے عرصہ بعد بھی سفر کرتے ہیں ، چین میں ہونے والی تعمیری اور مثبت تبدیلیوں کا مشاہدہ ضرور کرتے ہیں۔چین کی پرامن ترقی کا سفر تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔ ترقی کے اس سفر میں چینی قیادت اور چینی عوام شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ ترقی کے اس کا میاب سفر کے ثمرات بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کے تحت پوری دنیا تک پہنچانے کے چینی عزم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ اسلئے چین کی ترقی میں مختلف مسائل میں گری دنیا کیلئے امید اور روشنی کا پیغام ہے ۔