تحریر: سارا افضل
گھر وہ جہاں سکون ہو ، وطن وہ جہاں احساسِ تحفظ ہو
چین میں رہتے ہوئے پانچ سال ہو چلے ، ادارے میں بھی دنیا کے ہر ملک سے آئے ہوئے لوگ کام کررہے ہیںان کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں طلبا بھی ہیں ،کئی ممالک کے لوگ کاروبار کر رہے ہیں اور مختلف مواقع پر ان سب سے بات چیت ہوتی ہے۔ان میں ترقی یافتہ ممالک،ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک سب ہی طرح کے لوگ شامل ہیں ۔ چین میں قیام کے حوالے سے جن چند باتوں پر ہر شعبے اور ملک سے تعلق رکھنے والے سب لوگ متفق ہیں وہ یہ کہ ” یہاں رہتےہوئے تحفظ کا احساس ہوتا ہے”۔ یہاں پر فائرنگ ، گاڑی چھن جانے ، اغوا ہو نے ، موبائل یا پرس چوری ہو جانے کا کوئی خوف نہیں ہوتا ، اپنی کوئی چیز آپ کہیں رکھ کر وہاں بھول گئے ، آپ واپس جائیں آپ کو مل جائے گی ۔
دلچسپ بات یہ کہ کئی مرتبہ میں گھر کے مرکزی دروازے کو مقفل کرنا بھول جاتی ہو ں اور مجھے لگتا تھا کہ میں بہت غائب دماغ یا لاپرواہ ہوگئی ہوں لیکن کئی لوگوں نے یہ تذکرہ کیا کہ وہ سکیورٹی کے حوالے سے اس قدر مطمئن ہیں کہ بے دھیانی میں یا یوں کہیں کہ لاشعوری طور پر ہی کبھی کبھار گھر کا دروازہ لاک کیے بغیر ہی کام کے لیے باہر چلے جاتے ہیں ۔مجھ سمیت تمام تمام خواتین کایہ بھی مانناہےکہ یہاں کبھی کسی کی نظر تک نے ہمیں ہراساں نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ چین سے واپس جانے کا خیال آنے پر جو پہلی فکر ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ کیا واپس جا کر ہم اپنے جان و مال اپنی ذات کے تحفظ کے حوالے سے اتنے ہی مطمئن ہوں گے ؟ تحفظ اورعزت کا احساس ہی کسی بھی جگہ یا مکان کواپناگھربناتا ہے اور یہی احساسِ تحفظ زمین کے ایک
ٹکڑے کو ایک ملک ایک وطن بناتا ہے
چین میں امن و تحفظ کے اس احساس اور اس ماحول کی تشکیل ایک دن کی بات یا کسی جادو کی چھڑی کو گھمانے کا نتیجہ نہیں ہے ۔ماضی میں،چین میں دہشتگردی کے واقعات
کاایک سلسلہ پیش آیاجس نےایک پرامن اورمتحدسماجی نظام کو بری طرح متاثرکیا اور بنیادی انسانی حقوق کو بھی پامال کیا۔دہشتگردی کی ایسے ظالمانہ کروائیوں کی بیخ کنی کرنے کے لیے چینی حکومت نےقانون کےتحت احتیاطی اور تادیبی جوابی اقدامات کا آغازکیاہےاوردہشتگردیاورانتہاپسندی سےبنیادی انسانی حقوق کےتحفظ کےلیےاپنی کوششوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھاتےہوئےدہشتگردقوتوں کےخلاف مزاحمت جاری رکھی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ کڑے قوانین اور پھران پرسختی سےعملدرآمدنےکسی ایک شہرہی نہیں ملک بھرمیں امن وامان کی صورتِ حال اور نظام معاشرت کو ایک ڈگرپر رواں کردیا ہے۔ خیرقوانین تو ہرملک میں ہی ” تحریر ” کیےجاتےہیں لیکن کئی کئی کلوکی ضخی مکتب میں قوانین کوبندکردینےسےامن وسلامتی معاشرے میں سرایت نہیں کرتی بلکہ قوانین کے اطلاق اور ان کاعملی نفاذکرنےوالوں کی ثابت قدمی،سنجیدگی اور مستقل مزاجی کا اس میں بےحداہم کردار ہوتا ہے ۔
دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ طاقت کا استعمال ہی اس کا واحدحل نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پہلے اس کی جڑ کو تلاش کر کے اس کا علاج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم کی کمی، ملکی قوانین اور معاشرتی یا مذہبی معاملات کی حقیقی سمجھ نہ ہونا ، تعلیم اور دیگر پیشہ ورانہ مہارتوں میں کمی کی وجہ سے کام کاج یا ملازمتوں کے حصول میں ناکامی ، غربت ، بنیادی انسانی حقوق اور ضروریاتِ زندگی کی عدم دستیابی یہ تمام وہ عناصر ہیں جن کے باعث لوگ دہشتگرداورانتہا پسندقوتوں کےاکسانے یا مجبور کرنے پر ایسی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس لیے دہشتگردی کے خاتمے کا پہلا قدم یہ ہے کہ لوگوں کو تعلیم ،شعور اور ہنر دیا جائے ، ان کے بنیادی حقوق یعنی صحت ، تعلیم ، خوراک اور رہائش کے لیے ان کو سہولت فراہم کی جائے اور اس کے بعد امن دشمن قوتوں کی سرکوبی کا آغاز کیا جائے ۔ کیونکہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ اور عوام کی فلاحوبہبود کے کاموں میں بہتری ،کسی بھی ملک میں سماجی ہم آہنگی اور استحکام میں معاون ثابت ہوتی ہے اور یہی عوام کو متحد کر کے کسی بھی ٘منفی قوت کے خلاف کھڑا کرتی ہے ۔
اس سلسلے میں چینکےسنکیانگ ویغور خود اختیار علاقےکی مثال لیجیے ، ماضی میں سنکیانگ کے کچھ علاقےدہشتگردی سےشدیدمتاثرہوئے تھے اور وجوہات وہی تھیں جن کا ذکر چند سطور پہلے کیا گیا ہے۔ 1990 سے 2016 کےآخرتک،چین کےسنکیانگ ویغورخوداختیارعلاقےمیںدہشتگردی کےہزاروںواقعات رونماہوئے جن میں بڑی تعداد میں بےگناہ افراد ہلاک ہوئے، جب کہ سینکڑوں پولیس اہلکارجاںبحق ہوئےاورنجی اور سرکاری املاک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔اس علاقے کےلوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرنے اور انہیں یہاں سے ہٹائے بغیر اس علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے چینی حکومت نےانسداددہشتگردی کےحوالےسےقانون سازی میں اضافہ کیا اور دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث لوگوں کوقانون کےمطابق سزادی گئی ۔ تاہم اس دوران نےاس بات کو یقینی بنانےکی ہرممکن کوشش کی گئی کہ انسداددہشتگردی کےان اقدامات سے چین کے کسی بھی علاقے میں آباد کسی بھی قومیت کےلوگوں کےبنیادی حقوق،مفادات اور آزادی کی خلاف ورزی نہ ہو اور معمول کا سماجی نظم ونسق برقراررکھا جائے ۔
انسداددہشتگردی اور انتہاپسندی کےخلاف کی جانے والی موثر ، محتاط لیکن کڑی کاروائیوں اور سخت قوانین نافذ کرنے کا نتیجہ ہے اس علاقے کی ترقیاتی صورت حال میں واضح تبدیلی آئی ہے ۔ آج وہ علاقے جہاں کی معیشت اور معاشرت دہشت گردی کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پر تھیں وہ ،چین کی چھٹی فری ٹریڈ زون کا حصہ ہیں ۔ اس وقت سنکیانگ پائلٹ فری ٹریڈ زون میں غیر ملکی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، نئی صنعتیں اور کارخانے مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کر رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ اب پہلے کی طرح کم تعلیم یافتہ یا بے ہنر نہیں رہے۔ آج سنکیانگ چین کےمغرب کی جانب کھلنے کےلیے برج ہیڈ کےطورپرایک نئےمرحلےمیں داخل ہورہاہے،قازقستان کی سرحد سےمتصل شہرہورگوس آٹوایکسپورٹ کےلیےملک کی سب سے بڑی زمینی بندرگاہ اور وسطی ایشیاکےلیےایک اہم گیٹ وےبن گیاہےجہاں بہت سے بیلٹاینڈروڈپارٹنرممالک و اقع ہیں۔2023 میں سنکیانگ ویغور خوداختیارعلاقےمیں ہورگوس کی بندرگاہ پرکم رشل
گاڑیوں کی برآمدات ایک نئی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ۔ارمچی کسٹمز کے اعدادو شمار کے مطابق 2023 میں ہورگوس کےذریعےمجموعی طورپر 3 لاکھ سے زائد گاڑیاں برآمدکی گئیں،جوسال بہ سال 307.5 فیصد کا اضافہ ہے اور سنکیانگ میں تجارتی گاڑیوں کی برآمدات کے نصف سےزیادہ ہے۔ چین-یورپ مال بردار ریل گاڑیوں اور ہورگوس پورٹ سےمختلف طرح کا سامان وسطی ایشیا،روس اوریورپ سمیت دنیا بھر کےممالک کو برآمدکیاجاتاہےاور یہ ایک بے حد مصروف اور منافع بخش بندرگاہ بن چکی ہے. علاقے میں امن قائم ہونے کے بعد سے سیاحت کی صنعت نے نہ صرف یہاں کے مقامی جی ڈی پی بلکہ مجموعی طور پر ملک کے جی ڈی پی کی ترقی میں بڑا حصہ ڈالا ہے۔
چین نے مغرب کے پراپیگنڈے پر کان دھرے بغیر ، ان کے الزامات کا کوئی بھی لفظی جواب دیئے بغیر، عملی طور پر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا برا نہیں چاہتا ، نہ ہی ان کے بنیادی انسانی حقوق پر کوئی قدغن لگاتا ہے ، ان کی عبادت گاہیں بھی کھلی ہیں اور ان کی مذہبی رسومات اور تہوار بھی جاری ہیں لیکن جس بات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا وہ ” قانون کے خلاف جائیں ” ۔ وہ قانون جو کسی ایک علاقے میں نہیں بلکہ تمام ملک میں بلاتخصیص نافذ ہے۔
چین نے ایک طویل عرصےتک دہشتگردی کےحقیقی خطرےکامقابلہ کیا ہے اسی لیے چین ہمیشہ سےدہشتگردی کے خلاف قانون کی حکمرانی کے نفاذکواہمیت دیتا آیاہے ۔ چین نے بین الاقوامی کنونشنز اورمعاہدوں کےسلسلےکوحتمی شکل دینے یاان میں حصہ لینے،فوجداری قوانین میں ترمیم اوربہتری کےذریعےانسداددہشتگردی اورقانون کی حکمرانی میں مسلسل تجربہ حاصل کیا ہے۔حالیہ دنوں اسٹیٹ کونسل انفارمیشن آفس نے ‘چین کاقانونی فریم ورک اور انسداددہشتگردی کےاقدامات’ کےعنوان سےوائٹ پیپر جاری کیا گیا جس کے مطابق چین نےدہشتگردی کےمقدمات سےقانون کے مطابق نمٹنے کے طریقہ کارکوریگولیٹ کیاہے،کیس مینجمنٹ کی ذمہ دار ی پرعملدرآمدکیاگیاہے،اوربیرونی نگرانی کو مضبوط بنایا گیاہےتاکہ اس طرح کے معاملات سےنمٹنےمیں طاقت کےمعیاری اورمنظم استعمال کو یقینی بنایاجاسکے۔وائٹ پیپرمیںپانچ اہم حصےہیں. انمیں "انسداددہشتگردی کےلئےایک بہتر قانونی فریم ورک”، "دہشتگردی کی سرگرمیوں کے تعین اور سزا کےلیےواضح دفعات”، "دہشتگردی کےخلاف جنگ میں طاقت کامعیاری استعمال”، "انسداددہشتگردی کےطریقوں میں انسانی حقوق کا تحفظ” اور "لوگوں کی حفاظت اور قومی سلامتی کا مؤثرتحفظ” شامل ہیں۔
دہشتگردی انسانی تکی مشترکہ دشمن ہے،جوبین الاقوامی امن اور سلامتی کےلئےسنگین خطرہ ہے،اورتمام ممالک اور پوری انسانیت کے لیے ایک چیلنج ہے. اس کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری کسی ایک ملک کی نہیں بلکہ یہ پوری بین الاقوامی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ ایک ملک کی جانب سے دکھائی جانے والی کمزوری ، دنیا کے باقی ممالک اور بے گناہ عوام کے لیے ایک بھیانک مسئلہ بن جاتے ہیں لہذا اس قسم کی کاروائیوں کا ساتھ دینے اور یہ کاروائیاں کرنے والے ،کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوتے۔ ظلم کے خلاف قانون کی سختی ، اس قانون کے نفاذ کے دوران بے گناہ اور بے ضرر عوام کی حفاظت اور دہشت گردی کے خاتمے کے بعد لوگوں کے حالات میں لائی جانے والی بہتری اور بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا اصل اور موثر طریقہ ہے اور چین کی اسی حکمتِ عملی کے مثبت معاشی و معاشرتی نتائج سب کے سامنے ہیں ۔تحفظ اور خوشحالی کا یہ احساس جب زمینکےایکٹکڑےکوایکملک،ایکوطنبناتاہےتو ملک میں بسنے والے بھی پورے خلوص کے ساتھ اس کی حفاظت کے لیے تن من دھن لگا دیتے ہیں اور پھر ایسے ملک اور ایسی قومیں کسی بھی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دنیا کے نقشے پر چین کی طرح نمایاں نظر آتی ہیں ۔