شاکراللہ، ماہرابلاغیات چائنا ریڈیو انٹرنیشنل، بیجنگ،چین
پاکستان کی آبادی ۲۱ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔یہ آبادی تقریبا سات لاکھ مربع کلومیٹڑ کے رقبے پر ملک کے طول وعرض میں واقع مختلف شہروں اور دیہاتوں میں رہ رہی ہے۔ان میں سے زیادہ تر شہر اور دیہات مناسب منصوبہ بندی کے بغیر نظریہ ضرورت کے مطابق لوگوں نے خود آباد کیے ہیں۔ جہاں زمیں زرخیز ہے یا جہاں روزگار کے مواقع میسر ہیں اور جہاں ضروریات زندگی تک رسائی ہے وہاں شہر اور گاوں اباد ہوتے گئے جہاں ایسا نہیں ہے وہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح ان شہروں اور دیہاتوں کا انتظام چلانے کیلئے کوئی موثر انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو وقت کے تقاضوں سے بہت پیچھے۔ شہروں میں تو پھر بھی بوسیدہ ہی سہی تھوڑٓ ا بہت نظام موجود ہے لیکن دیہاتوں کی سطح پر ایسا بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر تعمیرات کو لیجئے۔ اس بارے میں نہ تو کوئی مناسب رہنمائی موجود ہے، نہ ہدایات اور نہ ہی کوئی چیک اینڈ بیلنس۔ گلی کی چوڑائی کتنی ہونی چاہیے عمارات کی اونچائی کتنی ہونی چاہیے کتنی منزلہ عمارت کی اجازت ہے،نکاسی کا نظام کیا ہوگا بجلی اور گیس کی فراہمی کیسی ہوگی اور دوسری ضروریات زندگی کی کیا صورت حال ہوگی ما سوائے اسلام آباد کے یا چند ایک دوسرے شہروں کے سرکار کی طرف سے نہ تو مناسب رہنمائی ہے اور نہ ہی قدغن۔لہذا ہمارے شہر اور دیہات بے ترتیبی کے نمونے ہیں۔ اللہ بھلا کرے تعمیرات کے شعبے میں بعض پرائیوٹ سوسائٹیز کا جنہوں نے تعمیرات اور آباد کاری میں ترتیب اور قرینے کوپروان چڑھایا۔ یا ان لوگوں کا جنہوں نے دانشمندی کا مظاہر کرکے تعمیرات کے تقاضوں کو ملحو ظ نظر رکھا۔یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے اپنے نکتہ نظر کی تائید کیلئے۔ میرا پوائنٹ یہ ہے کہ اگر مضبوط اور مناسب نظام موجود ہو تویہ بے ترتیبی نہ ہو۔
ہمارے ہاں بنیادی سطح پر اگر کوئی موثڑ اکائی موجود ہے تو وہ حکومتی یا انتظامی اکائی نہیں بلکہ معاشرتی اکائی ہے اور وہ ہے خاندان۔خوش قسمتی سے یہ اکائی میاں بیوی اور بچوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اکائی بہن بھائیوں سے لے کر چچا چچی ماموں خالہ پھوپھی دادا دادی نانا نانی کزنز وغیرہ وغیرہ تک کافی وسیع ہوجاتی ہے۔لہذا خوشی اور غمی، مشکل اور راحت دونوں میں یہ اکائی آپ کو فعال نظر آئیگی۔ یہ اکائی معاشرتی معاشی، نفسیاتی اور جذباتی لحاظ سے نہایت موثر اور زبردست کردار ادا کررہی ہے تاہم انتظامی، اجتماعی اور حکومتی اکائی کی ہر گز ہر گز متبادل نہیں۔ کیونکہ تعلیم،صحت اوار دیگر بے شمار پہلووں کو دیکھیں تو ان ضرورتوں کو پورا نہیں کرتی اور نہ ہی کرسکتی ہے۔ لہدا آپ کو اس سے بڑھ کر دیگر اکائیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کی زندگی کی دوسری ضروریات کی فراہمی اور ان تک رسائی کو ممکن بنائے۔ اور یہاں میرا دوسرا نکتہ آتاہے مقامی حکومت کی اہمیت اور کرادر کا۔
مقامی حکومت کی اہمیت اور کردار کا اندازہ مجھے عوامی جمہوریہ چین میں قیام کے دوران ہوا اور اس سے بڑھ کر کورونا وائرس کیخلاف جنگ میں۔تاہم آگے بڑھنے سے پہلے میں چاہتاہوں آپ کو عوامی جمہوریہ چین کے انتظامی ڈھانچے کا مختصر تعارف کراوں۔
انتظامی لحاظ سے عوامی جمہوریہ چین کو مرکزی حکومت کے براہ راست اقتدار کے تحت صوبوں، خود اختیار علاقوں اور بلدیات میں تقسیم کیا گیاہے۔ صوبوں اور خود اختیار علاقوں کو خود اختیار پر یفیکچرز، کاؤنٹیوں، خود اختیار کاونٹیوں اور شہروں میں تقسیم کیاگیاہے۔ کاؤنٹیوں اور خود اختیار کاؤنٹیوں کو بستیوں، قومیتی بستیوں اور قصبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔مرکزی حکومت کے تحت براہ راست بلدیات اور صوبوں اور خود اختیار علاقوں کے بڑے شہروں کو اضلاع اور کاؤنٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خود اختیار پریفیکچرز کو کاؤنٹیوں، خود اختیار کاونٹیوں اور شہروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت کے تحت خصوصی انتظامی علاقے بھی شامل ہیں۔ اس انتظامی ڈھانچے سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ انتظامی لحاظ سے کتنی سطحوں پرحکومت موجود ہے جن کی وجہ سے بنیادی سطح پر اقدامات اور احکامات کو عملی جامہ پہنایا جاتاہے، نگرانی اور احتساب کو یقینی بنایا جاتاہے اور سب سے بڑھ کر مسابقتی فضا موجود ہے جس کے تحت مقامی حکومتون کے درمیان مقابلہ ہوتاہے کہ کونسی مقامی حکومت اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ملک کی مختلف مقامی حکومتیں صرف اپنے علاقوں تک محدود نہیں رہتیں بلکہ ملک کے دوسری حصوں میں موجود مقامی حکومتوں کی مختلف امور اور چیلنجز سے نمٹنے میں بھی مدد کرتی ہیں۔
کورونا وائرس کووڈ ۱۹ کی وبا پھوٹنے کے بعد مقامی حکومتوں نے جہاں ایک طرف وبا کی روک تھام میں اہم کردار ادا کیا ہے وہاں نظم ونسق کو برقرار رکھنے اور بنیادی ضرورت کی اشیا لوگوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔ مقامی حکومتیں اپنے ماتحت کمیونٹی کے ہر شہری کی حفاظت اور دیکھ بال کی ذمہ داری بطریق احسن نبھارہی ہیں ۔ کورونا کیخلاف جدوجہد کے دوران انتظامی لحاظ سے مختلف آبادی کی اکائیوں نے داخلے کیلئے راستے مخصوص کیے اور ہر انٹری پوائنٹ پر عملہ تعینات کیا گیا۔ یہ عملہ صرف اس مخصوص آبادی کے یونٹ کے افراد کو داخلے کی اجازت دیتاہے۔داخلے کے وقت ہر فرد کے جسم کا درجہ حرارت چیک کیا جاتاہے اگر کسی کا درجہ حرارت نارمل انسانی درجہ حرارت سے زیادہ ہے تو اس کوقریبی ہسپتال یا خصوصی طور پر قائم کیے گئے مرکز پہنچایا جاتاہے اور دیکھا جاتا ہے کہ درجہ حرارت کس وجہ سے ہے اگرکورونا کا شک ہو تو ٹیسٹ کیا جا تاہے اور نتیجہ مثبت آنے کی صورت میں مناسب علاج معالجہ فراہم کیا جاتاہے اور قرنطینہ میں رکھا جاتاہے۔۔ اسی طرح لوگوں کے آنے جانے پر نظر رکھی گئی ہے اگر کسی نے متاثرہ شہر سے سفر کیا ہے تو اس کو قرنطین کیا گیاہے تاکہ کمیونٹی کے دوسرے افراد محفوظ رہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کے تحت دن میں کئی مرتبہ جراثیم کش سپرے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اجتماعات اور لوگوں کے اکٹھا ہونے پر پابندی کے نفاذ کو مقامی حکومتوں نے ہی عملی جامہ پہنایا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی ضرورت کی اشیا کی فراہمی کو بھی مقامی حکومتوں نے یقینی بنایا ہے۔ ان اقدامات کی بدولت مقامی حکومتوں نے چین کے طول و عرض میں شہروں اور دیہاتوں کی سطح پر ہر شہری کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے اور وبا کی موثرروک تھام کی ہے۔
کورونا وائرس اور دوسرے چیلینجز سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو بھی مضبوط مقامی حکومتوں کی ضرورت ہے۔ مقامی حکومتوں کو جتنا موثر بنایا جائے گااتنی ہی نچلی سطح پر مختلف امور کی انجام دہی میں آسانی ہوگی۔بد قسمتی سے پاکستان میں اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس سلسلے میں تاخیراور غفلت مزید نقصان کا باعث بنے گی۔ہماری میڈیا کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ فی الوقت میڈیا کی توجہ کا مرکز مرکزی اورصوبائی حکومت کی سرگرمیاں اورقومی اور صوبائی سطح کی قیادت رہتی ہے۔ میڈیا عام آدمی کی بات تو بہت کرتاہے لیکن مقامی حکومتیں جو عام آدی کیلئے سب سے موثر اور مفید کرداراد کرسکتی ہیں کے حوالے سے آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔اکیسویں صدی چیلنجز کی صدی ہے۔کورونا وائرس نے دنیا کے گلوبل ویلج کے تصور کوفاش کیاہے۔ آج زیادہ تر ممالک اپنی اپنی طبعی سرحدوں تک محدود ہوگئے ہیں۔ایسے میں مقامی یونٹ یا اکائی جتنی مضبوط ہوگی اتناہی چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹا جاسکے گا۔