گستاخیاں
تحریر: خالد مجید
مونث کے بہکاوے میں آجانا ابن آدم کی سرشت میں شامل ہے اور ہمیں اپنے اولاد آدم ہونے پر فخر ہے !!!
کچھ ایسا ہی ہوا کہ کورونا کی شدت کے بعد ہم نے اپنے آپ کو دن بھر کی چار دیواری میں پابند کر لیا ۔۔۔۔ کہ اس موتۓ کورنا کا علاج ہی یہ ھے کہ انسانوں دوری رہے ۔۔۔۔اور دوری بھی چھ فٹ سے کم نہ ھو ۔۔۔۔ اوپر سے پنجاب کی مشیر اطلاعات کا نیا حکم جو عید کا ھوا ھیے وہ تو سونے کے سہاگہ ھیے ۔۔۔۔ بس دوری ہی دوری ۔۔۔۔ پھر یہ کہ ہاتھ سے ہاتھ نہ ملے
شام ہوتے ہی اخبار کے دفتر اپنی ڈیوٹی پر چلے جاتے ہیں جو خوش اسلوبی سے نبھائی جاتی ہے اور قریب قریب دو بجے ختم ہوتی ہے گھر آتے آتے تین بج جاتے ہیں اس لئے کتنے ہی دن سے فیض آباد سے آگے جانے کا اتفاق ہی نہ ہوسکا ایسے میں کسی نے ملنے کا عندیہ جو ہمارے کانوں تک پہنچایا تو کہاں کی نیند اور کون سی نیند صبح سویرے نہا دھو کر خوبصورت لباس زیب تن کیا اور اسلام آباد کی راہ لی وہ مونث جو کہیں سے ہمیں ” رقم ” کی صورت ملنی تھی گذشتہ چند ماہ کی طرح پھر وعدہ فردا پر ٹال دی گئ جو ہم ملاقات کے خوش کُن تصور سے باہر نکلے تو ہماری حالت دگر گوں تھی پھر ان پر آشوب دنوں میں چند ہزار پر مشتمل رقم کسی بیش بہا انعام سے کم نہیں تھی کہ مہ صیام کے بعد عید اپنے آنے کا مکمل احساس دلاتی ھیے ۔۔۔۔ اخراجات ھی اخراجات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم مایوس نہیں ہوئے کہ مایوسی گناہ ہے یہ ہمیں ازبر ہے اور نا امیدی گناہ ہے اس پر ہمارا یقین پختہ ہے کہ کوئی کام وقت سے پہلے نہیں ہوتا جب جب اس کا وقت مقرر ہے وہ ضرور ہو گا یہ یقین در حقیقت خدائے ذوالجلال کی وحدانیت پر ایمان کی انتہا کا نام ہے اس لئے رقم کے نا ملنے سے نا ہم بور ہوئے نہ بوریت نے ہمیں آن گھیرا
بلکہ ھم نے اسلام آباد آوارگی کا سوچا اور زیرو پوائنٹ کا پل پار کرتے کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد کا
پنچھی ہمیں تھامے کچھ سال پیچھے لے گیا یہاں سے اسلام آباد شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام آباد گریڈ سسٹم کا شہر ہے یہاں
سکیل کی اجارہ داری ہے۔۔۔۔ لوگوں کا مقام و مرتبہ اُن کے گریڈ سے ہوتا ہے۔۔۔۔ حقیقت میں اصل وی آئی پی کلچر یہاں ہی ہے یہ شہر اقتدار ہے یہاں کے قدم قدم صاحب اقتداروں کے قصے زبان زدعام ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی اسلام آباد میں چند لوگوں کے متفق نہ ہونے سے کوئی گیارہ سال ملک کا ”ضیاع ”کرتا رہاہے ۔ اسی شہر میں منتحب وزیر اعظم کی سزائے موت کو عمر قید یا معافی میں نہیں بدلا گیا ۔اسی شہر میں گو بابا گو کا نعرہ لگایا تو اسی شہر میں ایک ایم این اے خاتون نے صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپنی چادر اپنے سر سے اتار کر صدر کو دے ماری تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی شہر بے رحم کا یہ اعجا زبھی ہے کہ یہاں بہت سے ”نااہلوں ”کو ”اہل” بنا کر اعلیٰ منصبوں پر بٹھا یاجاتا ہے یہاں سازشیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کی رکاوٹیں بھی جنم لیتی ہیں کبھی اسی زیرو پوائنٹ پر بے مقصد فوارے ہوتے تھے ان کے سامنے ایک فاختہ تھی اور اس کی چونچ میں زیتون کی شاخ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پتھر کی تھی مگر امن کی علامت تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام تر ہنگامہ آرائیوں کے باوجود یہ شہر امن تھا ۔فاختہ پر نظر پڑتے ہی امن کا احساس اور بڑھ جاتا تھا پھر ایک رات اسی فاتحہ پر سی ڈی اے نے ایسی سنگ باری کی کہ اس پر پتھر ہی پتھر پھیلا دیے اور فاختہ سمیت پتھروں پر پانی بہا دیا فاختہ ہر دم بھیگی رہتی تھی اس بھیگنے کے اندر ہی کہیں یہ فیصلہ ہوا تھا
کہ اس کو ختم کر دیا جائے اور پھر فاختہ کو ختم کر دیا گیا پھر ایسے لگا کہ جیسے اب یہ شہر امن نہیں رہا۔۔۔کیونکہ جب ببول اگنے لگتے ہیں اور پرندے شہروں سے ہجرت کر جاتے ہیں تو پھر وہاں دہشت کا راج ہو جا تا ہے وہاں ویرانی کا بسیرا ہوتا ہے رحمت خداوندی بھی منہ موڑ لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہل علم بتاتے ہیں کہ جب خدا ناراض ہوتا ہے تو ایساہوتا ہے جب دریائوں کا پانی سوکھ جاتا ہے پرند ے شہروں میں آنا چھوڑ دیتے ہیں جہاں ببول اگتے ہیں تو خالق اپنے مخلوق سے اپنی تخلیق سے ناراض ہوتا ہے اس کا غصہ کسی نہ کسی رو پ میں نظر آتا ہے کبھی2005ہوتا ہے ماہ صیام ہوتا ہے الیکشن بھی قریب ہوتا ہے لوگ جھوٹے وعدے کرتے ہیں اسلام آباد کہ ایک ٹاور میں ماہ صیام کی برکتوں کو بھول کر پوشاک قدرت میں ملبوس نامحرم مردو زن کی لاشیں چیخ چیخ کر اپنی غلطی کا اعتراف کر رہی ہوتی ہیں پھر زمین کو جھر جھری آتی ہے آن کی آن میں زندگیاں موت میں چلی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کبھی باران رحمت جلال میں آکر ایسی زحمت بنتی ہے کہ سیلاب بن کر گھر زمینیں فصلیں اور زندگیاں برباد کر کے گزر جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے مخلوق خدا !۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا سوچو کہاں غلطی ہوئی ہے کہاں کام میں اپ اینڈ ڈائون آیا ہے کہاں ہم سے کوئی بھول چوک ہوئی ہے کہ رب کعبہ نے محبت کی نظر کو ذرا سا تبدیل کیا ہے اور ہر طرف زندگی روٹھ گئی ہے ہر طرف سے موت کی خبر آرہی ہے یہ کو رونا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔چھوڑو سب کچھ !! آئو اپنے رب کو راضی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس التجا کرو ۔۔ دعا کرو ۔۔۔ توبہ کرو وہ معاف کرنے والا ہے معاف کر دے گا دیکھو اپنی نیت میں کھوٹ نہ ملانا وہ سمجھتا ہے یہ اور بات ہے کہ ماں کی طرح نظر انداز کرتا رہتا ہے !!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔کبھی سوچنا جب ماں جوتی پکڑلیتی تھی تو پھر” تشریف ”کا کیا حال ہوا کرتا تھا اگلے تین چار گھنٹے تو درد رہتی تھی ناں !!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس تھوڑیا کہے کو زیادہ
جان چاھئے !!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے معافی مانگیں توبہ کریں کہ وہ رحمن و رحیم ہے ۔