تحریر : سارہ افضل
چین کی غربت کے خاتمے کی کنجی, اپنے وسائل اور صلاحیتوں سے استفادہ کرنا ہے
چین نے مقامی وسائل ، ماحول اور مقامی افراد کی استعدادِ کار اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے فارمولے پر عمل کیا
چین میں غربت کے مکمل خاتمے کی بات کی جائے تو اس کو آج ے دور کا یک ” کرشمہ ” کہا جاتا ہے،عالمی برادری کا ماننا ہے کہ یہ مشن ، ناقابلِ یقین تیزی اور کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا ہے ۔ چین کے اس اتنے بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے پیچھے ایک شاندار جامع، عملی اور غیر معمولی منصوبہ بندی شامل ہے۔اگر آپ چین کے اس ماڈل کا جائزہ لیں تو جو سب سے اہم بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ چین نے مقامی وسائل ، ماحول اور مقامی افراد کی استعدادِ کار اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے فارمولے پر عمل کیا اور مقامی وسائل کے درست استعمال اور مقامی افراد کی صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئےدورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ چین ناصرف آبادی بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھیایک بہت بڑا ملک ہے ۔کہیں توزرخیز میدان ہیں جہاں پر اجناس کی پیداوار کوئی مسئلہ ہی نہیں ، مگر بعض مقامات جغرافیائی اور موسمی اعتبار سے شدید مشکل ہدف رہے ۔ ہر جگہ نہ تو زراعت کو فروغ دیا جا سکتا تھا نہ ہی ہر جگہ کار خانے لگانا ممکن تھا، مگر پھر بھی چین نے انتہائی غربت کا مطلق خاتمہ کیا اور یہ روایتی اور مروجہ طریقوں سے ہٹ کر نئے خیالات اور تجربات سے ہی ممکن ہوا ۔
اپنے وسائل اور صلاحیتوں کے مطابق ،اپنے ہی علاقے میں رہتے ہوئے،معاشی حالات میں تبدیلی کے اس عمل کی ایک مثال ،چین میں دیہی علاقوں یا فارم ہاوسز کا رحجانہے جو غربت کے خاتمے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ کہنے کو تو دنیا بھر میں بہت سے لوگ وقت گزاری کے لیے دیہی علاقوں میں جانا پسند کرتے ہیں ، متعدد لوگوں کے اپنے فارم ہاوسز بھی ہیں لیکن چین میں یہ فارم ہاوسز کسی امیر شخص کی ذاتی جائیداد نہیں ہیں بلکہ مقامی دیہاتیوں کی اپنی وہ زمین ہے جس پر وہ دیہی ماحول میں سادہ سی زندگی گزار رہے تھے اور اپنی روزمرہ ضروریات پوری کر رہے تھے ۔لیکن اب چین میں بڑے شہروں کے مضافات میں موجود ان دیہات میں موسمی پھل اور سبزیاںچننے اور کھانے ، انہیں پکانے ،یہاں کی سیر کرنےیعنی تفریح نیز قیام و طعام کو ملا کر”دیہی سیاحت "کا ایک نیا رجحانمتعارف کروایا گیا ہےجس کا کاروباری حجم ایک کھرب یوآنسےمتجاوز ہو چکا ہے۔ دیہی سیاحت نے نہ صرف کسانوں کی ایک بڑی تعداد کو غربت سے نجات دلانے میں مدد فراہم کی ہے بلکہ یہ دیہی احیاءمیں بھی بے حد اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
اس کی ایک مثال صوبہ حوبے کا قصبہ چھنگ گوانہے جہاں حکومت۲۰۱۹ ےبھرپورانداز میں تفریحیاور تجرباتی زراعت کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ قصبہ دیہی سیاحت پر مسلسل پانچ تہوار منعقد کرچکا ہے۔ جن میں ارد گرد کے علاقوں سے ایک لاکھ سے زیادہ سیاح آئے اور دس کروڑ یوآن سے زائد کی سیاحتی آمدنی ہوئی ہے۔ ۲۰۱۹ میں، صوبہ حو نان کے شہر چھانگشا میں ایک ہزار سے زائد نئے فارمز،”دیہی سیاحت ” کے اس تجربے سے وابستہ ہوئےاور اس سرگرمی سے متعلقہ معیشت سالانہایک بلینیوآن سے تجاوز کر گئی۔بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں کے مضافاتی علاقوں میں، یہ دیہی باغات یا فارم ہاوسز اور بھی زیادہ جدید اور متنوع سرگرمیوں سے بھرپور ہو چکے ہیںاور چھٹیوں میں یہاں پکنک منانا بے حد مقبول ے۔بڑے شہروں میں زندگی بے حد مصروف اور تیز رفتار ہوتی ہے اورسیرو تفریح کے لیے وقت کم ملتا ہے لہذا دفتر کے تھکا دینے والے ماحول سے دور یہسادہ قدرتی ماحول پرسکون کرتا ہے اور پھر فیملیز کے لیے یہ محض ایک تفریحی سرگرمی نہیں ہوتی بلکہ لوگ جب اپنے بچوں کو بھی یہاں لا تے ہیں تو یہاں پر ان کے لیے زراعت کا عملی تجربہ کرنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ۔ بچے زمین کے ایک ٹکڑے کا انتخاب کرتے ہیں بعض فارمز پر وہ اپنے نام سے اپنی پسند کا ایک پودا لگاتے ہیں اور وقتاً فوقتاًیہاں آکربوائی سے لے کر پودوںکے اگنے کے عمل اور ان کی نشوونما کا تجربہ کر تے ہیں۔ یہ بچوں کےلیےشجر کاری ، درختوں سے محبت ان کی دیکھ بھال کرنے کا احساس جگانے اور درختوں کی اہمیت بیان کرنے کی ایک عملی تجربہ گاہ بھی ہے اور ایک تعلیمی و تفریحی میدان بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں سبزے کا خیال رکھنے کا چلن بڑوں اور بچوں سب میں پایا جاتا ہے اور ہر کوئی درختوں اور پودوں کی حفاظت کرنے کا شعور رکھتاہے ۔
گزشتہ 40 برسوں میں، دیہی سیاحت یا فارم ہاؤسز پورے ملک میں پھیل چکے ہیںاور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے، دیہی مزدوروں کے لیےروزگار کی فراہمی اور شہری-دیہی ترقی کو مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان فارم ہاوسز پر آنے والے لوگ مالکان سے رابطہ کر کے ان کے یہاں پر فراہم کردہ سرگرمیوں اور پھلوں سبزیوں سمیت ماحول کے متعلق معلومات لیتے ہیں اور پھر وہاں کتنے لوگوں نے آنا ہے ان کی تعداد بتا کر بکنگ کرواتے ہیں اور فراہم کردہ سہولیات کے مطابق ادائیگی کرتے ہیں ۔ ان فارم ہاوسز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر قدرتی دیہی ماحول کو برقرار رکھےہوئے ہیں ، یہاں پھلوں اور سبزیوں کے لہیے کیمیائی کھاد استعمال نہیں کی جاتی ہے نہ ہی کیڑے مار ادویہ کا سپرے کیا جاتا ہے اسی لیے لوگ سٹرابیریاور چیری وغیرہ چنتے ہوئے بے فکر ہو کر انہیں کھاتے بھی ہیں ۔ یہاں پر مرغیاں بھی نامیاتی خوراک پر پلتی ہیں اور گائے بکریاں بھی، اسی لیے لوگ انڈے، دودھ اور مکھن وغیرہ بھی یہاں سے خریدتے ہیں ۔ اس کے علاوہ فارم کے مالکان ان پھلوں سبزیوں کو اگانے کے طریقے اور اس سے مختلف مشروبات ، جیمز ، مربے ، اچار اور سرکے بنانے کے طریقے ناصرف بتاتے ہیں بلکہ یہ بنا کر ان سیاحوں کو پیش بھی کیے جاتے ہیں۔ دوپہر کے کھانے کا اہتمام فارم کے انہی پھلوں سبزیوں اور دیسی مرغیوں وغیرہ کے گوشت سے کیا جاتا ہے اور بہت سے مختلف علاقوں سے آئےہوئے لوگوں کے لیے یہ ایک یادگار وقت ثابت ہوتا ہے ۔
دیہی سیاحت کا حکومتی انتظام وقت کے ساتھ ساتھزیادہ سے زیادہ معیاری ہوتا جا رہا ہے۔ اسٹار ریٹڈہوٹلز کی طرح اسٹار ریٹڈ فارم ہاؤسز بھی بننے لگے ہیں۔ حکومت مقامی زرعی وسائل پر مبنی برانڈڈفارم ہاؤسز کی ترقی میں بھی مدد اور رہنمائی فراہم کرتی ہے اور کچھ مقامات پر، مقامی زرعی وسائل استعمال کرتے ہوئے، مقامی خصوصیات کے ساتھبرانڈڈ فارم ہاؤسز بھی تشکیل دیئےگئے ہیں۔ ان فارم ہاوسز پر "قدرتی” اور ‘ کیمیائی اجزا سے پاک ” پھلوں ، سبزیوں اور پولٹری مصنوعات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی نگرانی کا نظام بھی متحرک رہتا ہے اور ساتھ ہی اس قدرتی ماحول کو خراب نہ کرنے کے لیے سیاحوں کو آگہیفراہم کرتے ہوئے ان میں احساسِ ذمہ داری بھی جگایا جاتا ہے ۔ دیہی سیاحت کا یہ تصور ناصرف ماحول کے تحفظ اور دیہی حیات کے احیا میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے بلکہ ہر عمر اور قابلیت والے افراد کے لیے اور اپنے ہی فارم ہاوس پر اپنے طرزِ زندگی اور وسائل میں کوئی نہ کوئی مصروفیت اور کام کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اپنی صلاحیت کے مطابق معاشی فوائد حاصل کرنے کا یہی وہ تصور ہے جس کے باعث آج چینی عوام انتہائی غربت سے نجات حاصل کرتے ہوئے ایک تاریخ رقم کر چکے ہیں.