تحریر: سارا افضل
چین، چیلنجز کے سامنے سر نہیں جھکاتا
مجھے چین میں رہتے ہوئے لگ بھگ ساڑھے چار سال ہوگئے ہیں یہاں پر آنے کے بعد احساس ہوا کہ ترقی اور معاشرتی نظم و ضبط کے لیے اگر حکومت کی مضبوط پالیسیز اہم ہیں تو وہیںعوام کی جناب سے حکومتی احکامات اور قوانین کا احترام بھی ناگزیر ہے ۔اس کی تاریخی مثال میں نےاس وقت دیکھی جب چین کے شہر ووہان میں وائرس پھیلنے کی خبریں سامنا آنا شروع ہوئیں اور ہفتوں نہیں دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کے اندر اندرپالیسیز کے اجرا اور ان کے نفاذ کا جومیکانزم دیکھاگیاوہنہ صرف عوام کی جانب سے قانون کے احترام کا ثبوت تھا بلکہ حکومت پر اعتماد کا اظہار بھی تھا۔ کووڈ-۱۹ پھیلنے کے پہلے مرحلے سےہی، چین نے سخت اقدامات اختیار کیے ،قرنطینہ کی حکمت عملی اور بین الاقوامی سفری پابندیوں نے چینی شہریوں کو وبا کے تباہ کن اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رکھا۔ اپنی کووڈ پالیسی کی وجہ سے چین کومسلسل شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نےثابت قدمی کےساتھ نہ صرف ان پرعمل کیابلکہ ان کےمثبت نتائج بھی دنیاکےسامنےآئے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ چین آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑاملک ہے پھر بھی گزشتہ تین برسوں میں چین، دنیا میں سب سے کم متاثرہ کیسز اور کم شرحاموات کا حامل ملک رہا ہے۔ کوویڈ کا علاج کرنے والی ادویہ تیار کرنے اور ایک اعشاریہ چار بلین کی بڑی آبادی ،جو مجموعی طور پر پوری یورپی آبادی سے تقریبا دوگنا ہے، اس کی علاج اور ویکسین کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے وقت درکار تھا۔ چین کی آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی متاثر ہو تو مانگ اور ترسیل سے متعلقہ اعدادو شمار بہت زیادہ ہوتے ہیں، صرف ایک بیجنگ شہر کی آبادی ہی ۲ کروڑ سے زائد ہے ایسے میں شرحِ اموات اور متاثرہ کیسز کی شرح قابو میں رکھنا اور اسے تشویشناک حد میں داخل نہ ہونے دینا بھی ایک بڑی کامیابی ہے ۔
ان تین سالوں میں دنیا نے جو کچھ جھیلااور جو تجربات ہوئے اگر اس پر نظر ڈالیں توہم دیکھتے ہیں کہ جن ممالک نے فوری طور پر ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ کے ساتھ ساتھ قرنطینہ پر مشتمل ردعمل کا آغاز کیا ، انہوں نے ابتدائی دور میں ہی اس وبا پر قابو پانے میں ان ممالک کی نسبت زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جن کی پالیسیز کمزور تھیں۔ تاہم ایک بار جب ویکسین وسیع پیمانے پر دستیاب ہو گئی، تو بہت سے ممالک نے اپنی پالیسیز کو ویکسینیشن کے حصول کی جانب منتقل کر دیا ۔ پالیسی کی تبدیلی کا یہی اصول چین نے بھی اپنایا ہے۔ حالیہ چند ماہ میں بوسٹر شاٹ دستیاب ہوئےتو چین نے بھی اپنی کوششوں کولاک ڈاؤن سے ہونے والے اقتصادی اور سماجی نقصانات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ کمزور کمیونٹیز کو بچانے کی جانبمنتقل کیا اور صورتِ حال کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پالیسیزکو بھی بتدریج تبدیل کیا ۔
یہاں رہتے ہوئے گزشتہ تین سال کے دوران حالات ، اقدامات اور ان کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھااور اب حالیہ دنوں پابندیوں میں نرمی کے بعد آنے والے اس نئی لہر کا سامنا بھی کیا ہے جو کہ پہلے جیسی مہلک تو نہیں مگر بلاشبہ اس سے پہلے کی نسبت زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔تاہم وائرس کی روک تھام کے لیے اپنائے جانے والے سخت اقدامات کو ختم کرنا کسی بھی طرح سے اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ حکومت نے وائرس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں بلکہ اقدامات میں کی جانے والی تبدیلی میں موجودہ صورت حال کی سنگینی کو نظر انداز نہیں کیا گیا ، کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ اس وقت چین میں وبا کی جو لہر جاری ہے وہ بے حد شدید اور مہلک نہیں ہے،اس سے متاثرہ زیادہ تر لوگ چند دن آرام کرنے کے بعد صحت یاب ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی یہ وائرس بزرگوں کی زندگی اور صحت کے لئے سنگین خطرہ ہے ، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو صحت کے بنیادی مسائل کا شکار ہیں ۔ دوسرے ، معیشت کی بحالیِ ناگزیر ہے اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ نقل و حرکت درکار ہے۔ہم نے دیکھا کہ پابندیوں میں نرمی کے بعد ابتدائی دنوں میںبڑی تعداد میں شہری متاثر ہوئے ،لیکن زندگی کو دوبارہ معمول کی طرف واپس لانے میں ماضی کے تجربات کے ساتھ ساتھ ویکسینیشن کا بھی کردار رہا ، جس نے اس مرض کی شدت کو دوسرے درجے تک رکھا ۔ چین میں ۶۰سال اور اس سے زیادہ عمر کے ۲۴۰ملین افراد میں سے ۷۵ فیصد اور ۸۰سال اور اس سے زیادہ عمر کے ۴۰فیصد افراد کو ویکسینیشن کی تین خوراکیں مل چکی ہیں اور یہ اعدادو شمار کچھ ترقی یافتہ معیشتوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں لیکن ابھی بھی معمر افراد میں ویکسین کی شرح کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
"دنیا سے تو وبا ختم ہوگئی ہے تو چین میں یہ ابھی تککیوں ہے ؟” ،لوگوں کی یہ سوچ حقائق جھٹلانے والی بات ہے ،وبا دنیا سے ختم نہیں ہوئی ہے یہ دنیا میں موجود ہے اور اپنی موجودگی کبھی کسی ملک میں تو کبھی کسی خطے میں ظاہر کرتی آرہی ہے تاہم متعدد ممالک میں ٹیسٹنگ ختم کر دیے جانے کے بعد سے اس کی باقاعدہ نشاندہی نہیں ہو رہی ہے ۔ ایسے میں چین نے ٹسٹنگ اور ٹریسنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ یہ صورتِ حال آسان نہیں ہے چین کو بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے خاص طور پر آنے والے چند ماہ آسان نہیں ہوں گے ۔ اس وقت ملک بھر میںموسم سرما کا درجہ حرارت منفی میں چل رہا ہے جس کے باعث انفلوئنزا سیزن عروج پر ہے اور ہسپتالوں پر پہلے سے ہی موسمی بخار اور زکام سے متاثرہ مریضوں کابوجھ ہےایسے میں کووڈ کیسز میں اضافے کے باعث صحت کا نظام کافی دباؤ کا شکار ہے۔اس کے علاوہ اگلے ماہ چین کے نئے قمری سال کا آغاز بھی ہو رہا ہے اور اس موقع پر بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی ہوگی کیونکہ یہ وبا کی روک تھام کے اقدامات میں نرمی کیے جانے اور سفری پابندیوں اور سفری کوڈ کے خاتمے کے بعد پہلا جشنِ بہار ہے لہذا لوگ اپنے علاقوں میں واپس جانے کے لیے بے تاب ہیں ایسے میں وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھے گا۔
ملک بھر میں اسپتالوں پر جو دباؤ ہے اس کے باعث مختصر وقت میں ہنگامی وسائل کو بڑھانے اور بخار ،سوزش ، کھانسی زکام کی ادویہ کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے.اس کے لیے ہنگامی کلینکسکے قیام، طبی کارکنوں کے لئے معاون عملے کی تعداد میں اضافے، اور سروسز کی کارکردگی کو بہتر بناننے کی ضرورت ہے . مختلف شہروں نے اس حوالے سے عملی اقدامات اختیار کیے ہیں، مثلاً بیجنگ میں بخار کا علاج کرنے کے لیے ہنگامی ، عارضی کلینکس قائم کیے گئے ہیں جن کی تعداد گزشتہ ہفتوں میں ۹۴ سے ۱۲۶۳ تک بڑھ گئی ہے۔ کئی شہروں میں کووڈ -۱۹ کی ٹیسٹنگ کے لیے بنائے گئے بوتھ ،بخار کے مریضوں کے لیےکسلٹیشن رومز میں تبدیل کردیے گئے ہیں جہاں انہیں بنیادی ادویہ اور علاج تجویز کیا جارہا ہے۔ہاربن میں صبح کے اوقات میں کام کرنے والے ٹیسٹنگ بوتھ ، سرِ شام ہی سیلف سروس میڈیسن ڈسٹری بیوشن بکس میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں جہاں مقامی رہائشیوں کو مفت ادویہ فراہم کی جاتی ہیں۔نانجنگ میں مقامی حکومت نے ۱۹دسمبر سے اب تک ۱۶بسز کو موبائل فیور کلینک میں تبدیل کیا ہے۔متعدد شہروں میں ، مقامی کمیونٹی کارکن شدید متاثرہ گھرانوں کو بخار اور کووڈ کی دیگر دوائیںمفت فراہم کر رہے ہیں۔
حکومت کی تمام تر صورتِ حال پر گہری نظر ہے اور وہ اسی کے مطابق اپنی پالیسی میں بتدریج تبدیلی کر رہی ہے ۔چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے ۲۶ دسمبر کو اعلان کیا ہےکہ چین اگلے سال آٹھ جنوری سے بین الاقوامی آمد کے لیے قرنطینہ کی پابندی ختم کردے گا۔تاہم مسافروں کے لیے۴۸ گھنٹوں کے اندر نیوکلیک ایسڈ ٹیسٹ ابھی بھی لازمی ہے ۔اس کے علاوہ یہ اعلان بھی کیا گیاہے کہ چین نے نوول کورونا وائرس نمونیا کا نام تبدیل کرکے نوول کورونا وائرس انفیکشن رکھ دیا ہےاب اس سے اے کیٹیگری کی متعدی بیماری کی بجائے کیٹیگری بی کی متعدی بیماری قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ دونوں اقدامات بے حد اہم ہیں جو نہ صرف چینی حکومت کے "عوام کی زندگی اولین ترجیح” کے اصول پر بھی پورا اترتے ہیں بلکہ عالمی معیشت کی بحالی میں چین کے اہم ترین کردار کو متحرک کرنے کے حوالے سے بھی خوش آئند ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں عالمی معیشت کا ” طاقتور انجنچین "، اپنی پوری رفتار اور توانائی کے ساتھ حالات کی گاڑی کو پٹری پر واپس لانے اور اس کی رفتار بڑھانے میں مستعد ی کے ساتھ اپنا حصہ ڈالے گا ،کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ چین مشکل حالات میں بھی نہ تو کمزور پڑتا ہے نہ ہی چیلنجز کے سامنے سر جھکاتا ہے۔