پشاور(نیوز پلس) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فاصلوں اور بد اعتمادی بڑھنے کا فائدہ دہشت گردوں کو ہوگا لہٰذا جاری امن مذاکرات کی کامیابی پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور پاکستان اور اس حوالے سے اپنا خصوصی کردار ادا کرنا چاہئے، 12اگست سانحہ بابڑہ کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے بابڑہ کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی قربانیوں کو سلام پیش کیا اورکہا کہ سانحہ بابڑہ ایک عظیم سانحہ اور پختونوں کیلئے کربلا سے کم نہیں تھا، آزادی کی خاطر قربانیاں دینے والوں کو تاریخ کبھی بھلا نہیں پائے گی، انہوں نے کہا کہ زندہ قومیں اپنے اسلاف، شہداء اور غازیوں کی قربا نیوں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں اور جب تک ممکن ہوا ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ 12اگست انسانی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور شہدائے بابڑہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے، انہوں نے کہا کہ سانحہ بابڑہ یزید وقت کے ظلم اور بربریت کا دن اور کسی کربلا سے کم نہیں تھا جب باچا خان بابا، عبدالولی خان، غنی خان کو تحریک کے دیگر 4ہزار ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تو اس کے خلاف امن کے علمبردارں اور انسانیت کا پرچار کرنے والوں نے پر امن مظاہرہ کیا جس کی قیادت سالار امین جان کر رہے تھے جبکہ سپین ملنگ اس مظاہرے میں پیش پیش تھے، خدائی خدمت گاروں کی گرفتاری کے خلاف پر امن احتجاج کیلئے ارد گرد کے علاقوں مردان صوابی نوشہرہ اور دیگر علاقوں سے پیدل سفر کے خدائی خدمت گار مقررہ جگہ پہنچے،جہاں اس وقت کے یزید حکمرانوں نیان پر گولیوں کی بارش کر دی،اور اس بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں پہلی گولی سپین ملنگ کو لگی جبکہ خواتین اور بچوں سمیت سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 602افراد شہید کر دیئے جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی، انہوں نے کہا کہ یزیدیت کی اس قدر انتہا کی گئی کہ ایک ہزار سے زائد لوگ اندھی گولیوں کا نشانہ بن کے زخمی ہوئے تاہم سرکاری ہسپتالوں میں ان کے علاج پر پابندی کے باعث بیشتر افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے،اور بیشتر شہداء کو ملحقہ دریاؤں میں پھینک دیا گیا، اور اجتماعی قبریں کھود کر لاشیں پھینک کر دفن کر دی گئیں،اور جو زندہ بچ گئے انہیں زندانوں میں ڈال دیا گیا،انہوں نے کہا کہ شہداء کے لواحقین سے زبر دستی زمینیں ضبط کی گئیں اور سانحے میں چلائی جانے والی گولیوں کے اخراجات بھی ان سے وصول کئے گئے، جبکہ ستم ظریفی یہ کہ انہیں کہا گیا کہ اگر گولیاں ختم نہ ہوتیں تو کئی اور جانیں بھی لی جاتیں،موجودہ صورتحال کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان امن مذاکرات اہم موڑ پر ہیں اور ایسے وقت میں ذرا سی غلطی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی، انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی سے پیدا ہونے والے فاصلوں کا فائدہ دہشت گردوں کو ہو گا،انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہے تو اسے ہوش سے کام لینا ہوگا،انہوں نے کہا کہ 65اور71کی جنگوں کے دوران افغانستان کا کردار سب کے سامنے ہے جب پاک فوج مشرقی بارڈر پر مصروف تھی تب افغانستان نے مغربی سرحدوں پر ہمارے لئے کبھی پریشانی پیدا نہیں کی اور برادرانہ تعلقات کی عظیم مثال قائم کی،اسفندیار ولی خان نے کہا کہ اگر آج ہم بھائی چارے اور بہتر ہمسائیگی کا حق ادا کریں اورافغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھیں تو اُس کی پہلی ترجیح پاکستان ہو گا،انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ہر صورت دہشت گردی ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردوں کا راستہ روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے، انہوں نے کہا کہ متفقہ20نکاتی دستاویز موجود ہے تو پھر دہشت گردی کا راستہ روکنے میں رکاوٹ کیوں پیش آ رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تما م 20نکات پر من و عن عمل کئے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے۔