Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

وزیراعظم نے قومی اقتصادی پلان اڑان پاکستان پروگرام کا افتتاح کر دیا

وزیراعظم نے قومی اقتصادی پلان اڑان پاکستان پروگرام کا افتتاح کر دیا

 بھارت کو ترقی دینے کیلئے منموہن سنگھ نے سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے ماڈل کو اختیار کیا،شہبازشریف

اگر ملک کو آگے چلنا ہے تو اشرافیہ کو قربانی دینی ہوگی،اگر آج بھی ہم میثاق معیشت پر اتفاق کرلیں تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوجائیں، اڑان پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب

اسلام آباد:  وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اقتصادی پلان اڑان پاکستان29-2024 پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ترقی دینے کے لیے سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے ماڈل کو اختیار کیا،اگر ملک کو آگے چلنا ہے تو اشرافیہ کو قربانی دینی ہوگی،اگر آج بھی ہم میثاق معیشت پر اتفاق کرلیں تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوجائیں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اقتصادی پلان اڑان پاکستان29-2024 پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج عظیم دن ہے، بے پناہ چیلنجز کے باوجود معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پیچھے رہنے جانے پر رونے کا فائدہ نہیں، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں اس موقع پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں کروں گا، جب 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے تھے، پاکستان دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا، اس سے بچنے کیلئے ہماری قیادت اور اتحادیوں نے فیصلہ کیا کہ سیاست نہیں، ریاست کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جائیں گے اور تنائج میں پیدا حالات کا سامنا کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام روکنے کے لیے خطوط لکھے گئے تھے کہ پروگرام نہ کیا جائے، اس سے بڑی عوام کے ساتھ زیادتی کیا ہوسکتی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے 38 فیصد مہنگائی کا بوجھ برداشت کیا، کاروباری حضرات 22 فیصد شرح سود دیکھ کر خوفزدہ تھے، زر مبادلہ کے ذخائر محدود تھے، مجبوری میں ہمیں ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑا، اس کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھرپور تعاون کیا، ان کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔

اڑان پاکستان - وزیراعظم پاکستان
اڑان پاکستان – وزیراعظم پاکستان

انہوں نے کہا کہ میری دعا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگروام ہوگا، اس کی مثالیں موجود ہیں، پڑوسی ملک نے 90 کی دہائی کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ا

نہوں نے کہاکہ قدرت نے اس ملک کو وسائل دیے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام کیوں لینا پڑا۔وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ریاستی ملکیتی اداروں نے 6 کھرب کا نقصان کیا، آئی ایم ایف پروگرام میں ہمیں 7 ارب ڈالرز قرض میں مل رہے ہیں تاکہ استحکام آئے اور پاکستان شرح نمو کی طرف جائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر 6 کھرب کے نقصانات اس غریب قوم نے برداشت کیے جو دریا برد ہوگئے، 4 کھرب میں بننے والی بجلی 2 کھرب میں بکے تو 2 ارب کا خسارہ کس کے کھاتے میں ڈالیں، 70 سال میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی تو قرضے نہیں لیں گے تو کیا کریں گے، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم قائد اعظم کے فرمودات کے تحت چلتے تو آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا نہ ہوتا اور ترقی کے لیے درکار وسائل موجود ہوتے۔

انہوں نے کہاکہ ہم کتنا پیچھے چلے گئے ہیں، اس کا کوئی شمار نہیں، اس پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں، لعن، طعن کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہاں گریبان میں جھانک کر، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم فیصلہ کرلیں کہ ماضی میں نقصانات ہوئے، جو خامیاں یا کمزوردیاں ہوئیں، ان کو سامنے رکھ کر پوری قوم کام،کام اور کام، محنت، محنت اور محنت کا سفر اختیار کرے تو بلا خوف تردید میں آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گا، ہمیں راستہ بدلنا ہوگا، بلکل نئی طرح استعمال کرنی ہوگی۔

شہباز شریف نے کہا کہ ماضی قریب میں ہم متکبرانہ اور نا پسندیدہ رویوں کی وجہ سے دنیا میں تنہا ہوگئے، ایک دوست ملک سے ہم نے ایک ارب ڈالرز کا قرضہ مانگا، وہاں کے اکابرین نے مجھے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ آدھا ارب ڈالر پاکستان کو دے دیتے ہیں، شہباز شریف صاحب آپ کے ملک سے جواب آیا کہ یہ واپس رکھو، ہمیں نہیں چاہیے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بتائیے کہ ایک تو آپ مانگ رہے ہیں اور اوپر سے آپ اکڑ رہے ہیں کہ ہمیں نہیں چاہیے، یہ کتنا بڑا تضاد ہے، اس کے علاوہ ایک اور دوست کے خلاف جو باتیں کی گئیں، وہ میں اپنی زبان پر بھی نہیں لا سکتا، یا تو ہمارے اندر یہ صلاحیت ہوتی کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا، ایک طرف ہم نے کشکول اٹھایا ہوا ہے، دوسری طرف کہہ رہے کہ ہمیں نہیں لینا۔

شہباز شریف نے کہا کہ منموہن سنگھ نے نواز شریف کے ماڈل کو اختیار کیا، نواز شریف کے دور حکومت میں جو اصلاحات ہوئیں، ان پر عمل کیا، جو ریفارمز یہاں ہوئیں، ان کو اختیار کیا، اس کے بعد باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 2013 سے 2018 کا دور آیا جس میں ہماری معیشت نواز شریف کی حکومت میں شرح نمو 6 فیصد سے بھی تجاوز کرگئی، مہنگائی سائھے تین فیصد پر تھی، وہ وقت آج بھی لوگوں کے ذہن میں بڑا تازہ ہے، اب ماضی میں جائے بغیر آگے بڑھنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ وزیر خزانہ نے بتایا کہ پالیسی ریٹ 13 فیصد پر ہے، گورنر اسٹیٹ بینک بیٹھے ہیں، ان کے پاس ابھی بھی 8 پوائنٹس کی گنجائش ہے، اگر یہ چاہیں تو ایک قلم سے اس کو 13 سے 6 فیصد پر لے آئیں لیکن میں اس کے اوپر پر زور نہیں دوں گا، کیونکہ اب وہ خود مختار بن گئے ہیں، اب کیا کریں، ان کو خود مختاری جنہوں نے دلوائی، کن وجوہات کی بنا پر، میں ان کو نہیں جانتا، لیکن میں ان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہوں۔

انہوں نے کہاکہ  ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا، اس میں تمام اداروں کا کردار ہے، یہ انتہائی خوش کن، خوبصورت، منفرد تبدیلی بن گئے ہیں، اب کیا کریں، ان کو خود مختاری جنہوں نے دلوائی، کن وجوہات کی بنا پر، میں ان کو نہیں جانتا، لیکن میں ان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہوں۔

انہوں نے کہاکہ  ہماری برآمدات میں اضافہ ہوا، اس میں تمام اداروں کا کردار ہے، یہ انتہائی خوش کن، خوبصورت، منفرد تبدیلی ہے کہ حکومتیں اور ادارے مل کر کام کر رہے ہیں، میں نے ماضی میں اس طرح کی شراکت نہیں دیکھی، مجھے بڑے وسوسے ہیں لیکن دعا کرتا ہوں کہ یہ پارٹنر شپ قیامت چلتے رہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف نے نہیں کہا کہ 3 ٹریلین دریا برد ہو رہے ہیں، جب ہوگا تو قرض نہیں لیں گے تو کیا کریں گے، یہ ہے وہ چیلنج جس کا سامنا ہے، میکرو استحکام آچکی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ بلا مبالغہ کہوں گا کہ میں نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں ملک کی بہتری کے لیے اس طرح کے تعاون کا تجربہ نہیں کیا جو میں نے پہلی دفعہ آرمی چیف اور ادارے کی طرف سے دیکھا، اللہ کرے کہ یہ اس طرح ہمیشہ جاری رہے، کیونکہ ہم اپنی اننگز کھیل کر گھر چلے جائیں گے، لیکن یہ ملک قیامت تک چلے گا۔ا

نہوں نے کہاکہ استحکام آچکا، اب شرح نمو اس صورت میں بڑھے گی جب آپ کے ان پٹس جیسے گیس اور خاص طور پر بجلی سستی ہو، اگر بجلی خطے میں سب سے مہنگی ہے تو پھر پائیدار ترقی کا سوال پیدا نہیں ہوتا، اس شعبے میں گردشی قرض ڈھائی سو ارب کا ہے، گیس کے شعبے میں 3 کھرب کا گردشی قرض ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے کئی عوامل ہیں، جب آپ بجلی چوروں کو پکڑتے ہیں تو وہ احتجاج کرتے ہیں، جب تک بجلی سستی نہیں کریں گے، اس وقت تک صنعت و حرفت کا پہیہ نہیں چلے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اب شرح سود کم ہوگئی ہے، اب لوگ بینک سے پیسے نکالیں گے، روزگار کے مواقع اور برآمدات میں اضافہ ہوگا، انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری معیشت درآمدات پر مبنی ہے، اگر درآمدات بند ہوجائیں تو پوری صنعت بند ہوجائے، میں کسی کو دوش نہیں دے رہا، یہ ہماری مجموعی ناکامی ہے، اب آج ہمیں برآمدات پر مبنی شرح نمو کی ضرورت ہے، وہ ہوا میں نہیں آئیگی، اس کے لیے آپ کو ایک ماحول بنانا ہوگا، اس پر ہم کام کر رہے ہیں، آڑان پاکستان کا محور برآمدات پر مبنی شرح نمو ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ٹیکس کم کرنے ہوں گے، اگر میرا بس چلے تو میں پاکستان میں ٹیکس 10،15 فیصد ٹیکس کم کردوں، تاکہ چوری بھی کم ہو اور صلاحیت میں بھی بہتری آئے لیکن اس کا وقت آئیگا، ابھی ہم آئی ایم ایف پروگرام کر رہے ہیں، اس کا وقت آئے گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ معاشی ترقی کے لیے ہمیں سیاسی استحکام چاہیے، اگر آپ کو ترقی کرنی ہے تو نقصان کا باعث بننے والے اداروں کی نجکاری کرنی ہوگی، ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ پر، پی آئی اے میں ہمیں دھچکا لگا ہے، ٹیم نے پوری کوشش کی، اس میں کوئی شک نہیں، دوبارہ کوشش کریں گے، اب یورپی یونین نے پی آئی اے کو پروازوں کی اجازت دے دی ہے، اس لیے اس کا گراف اوپر ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی سرمایہ کاری کے حوالے سے کہا گیا کہ آئی پی پیز معاہدوں سے اعتماد کو دھچکا لگا، مجھے بتائیں اس کے علاوہ کسی شعبے کو نہیں چھیڑا گیا، اس بجلی کا واحد خریدار پاکستان ہے، اس کی اہمیت میں آپ کو بتا چکا، سستی بجلی نہیں ہوگی تو صنعت نہیں چلے گی، یہ سب آئی پی پیز دس گنا منافع لے چکے ہیں، اس پر پھر کیپیسٹی چارجز، پھر فرنس آئل اس می بھی ریلیف۔

انہوں نے کہاکہ نواز شریف نے اپنے دور میں ایل این جی کے 4 منصوبے لگائے، اس وقت نیپرا کا ایل این جی ٹیرف ساڑھے 8 لاکھ ڈالر تھا، نواز شریف نے ساڑھے 4 لاکھ ڈالر تھا، یعنی 100 فیصد کم، اس کے بعد نیپرا کو نواز شریف کی کارکردگی کی بنیاد پر اپنا ٹیرف از سر نو تبدیل کرنا پڑا، اس کے بعد پرائیویٹ سیکٹر نے ایل این جی کا منصوبہ نہیں لگایا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر ملک کو آگے چلنا ہے تو اشرافیہ کو قربانی دینی ہوگی، مانتا ہوں کہ وہ معاہدے تھے، لیکن آپ اس کو پورے تناظر میں دیکھیں، اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ کیوں کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ میرے بعض ساتھی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، میں احترام کرتا ہوں۔

شہباز شریف نے کہا کہ اگر آج بھی ہم میثاق معیشت پر اتفاق کرلیں تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوجائیں، حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے، اس کا کام اس کو نجی شعبے میں فروغ دینے کے لیے سہولیات دینا ہے،

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More