اسلام آ باد (نیوز پلس)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہناتھا کہ میرے اور عدلیہ کے خلاف ایک گھناوٗنی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی ریٹائرڈ منٹ کے موقع پر ان کے اعزاز میں دئیے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی الزام لگایا گیا کہ میں نے صحافیوں سے ملاقات میں پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کی حمایت کی۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ میرے اور پوری عدلیہ کے خلاف ایک گھناوٗنی مہم شروع کر دی گئی ہے، سچ سامنے آئے گا اور سچ کا بول بالا ہوگا۔چہف جسٹس نے کہا کہ بطور جج ہمیشہ اپنے حلف کی پاسداری کی ہے اور تمام فیصلے بے خوف و خطر اور غیر جانبداری سے دیے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہییں۔ اُن کے لیے یہ اہم نہیں کہ ان کے دیے گئے فیصلوں پر دوسروں کا ردعمل یا نتائج کیا ہو سکتے ہیں کیونکہ انھوں نے ہمیشہ وہ کیا جسے اُنھوں نے درست سمجھا،بطورچیف جسٹس انہوں نے 337 دن ذمہ داری نبھائی اور اگر ہفتہ وار اور دیگر تعطیلات نکال دی جائیں تو 235 دن کام کے لیے ملے اور اس عرصے کے دوران عدالتی شعبے میں اصلاحات کے لیے اہم اقدامات کیے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ جب وہ پیدا ہوئے تو ان کے منہ میں ایک دانت تھا اور اس وقت خاندان میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ بچہ بہت خوش قسمت ہو گا۔ قبل ازیں اسی فل کورٹ ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن نے کہا کہ خصوصی عدالت کے حالیہ فیصلے میں جسٹس کھوسہ کے وضع کردہ قانونی اصول مد نظر نہیں رکھے گئے۔انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت جسٹس وقار احمد سیٹھ کا فیصلہ تعصب اور بدلے کا اظہار کرتا ہے، جسٹس وقار کا سزا پر عملدرآمد کا طریقہ غیر قانونی اور غیر انسانی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن نے مزید کہا کہ جسٹس وقار کا سزا پر عملدرآمد کا طریقہ وحشیانہ اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، فیصلہ کرمنل جسٹس سسٹم کی روایات سے بھی متصادم ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ کا کنڈکٹ اعلیٰ عدلیہ کے جج کے کنڈکٹ کے منافی ہے، بوجھل دل سے کہتا ہوں کہ جسٹس کھوسہ نے صحافیوں سے گفتگو میں خصوصی عدالت کے فیصلے کی حمایت کی، انہوں نے ایسے وقت فیصلے کی حمایت کی جب تفصیلی فیصلہ آنا باقی تھا۔