مسلسل احتجاجی کالز سے اہمیت نہیں رہتی، پی ٹی آئی اس طرح بے نقاب ہو رہی ہے، مولانا فضل الرحمن
پی ٹی آئی میں موثر حکمت عملی بنانے والے لوگ نہیں ہیں، دو جماعتیں اگر اپوزیشن میں بیٹھ گئی ہیں تو اس کا فائدہ اٹھانا ہی حقیقت میں سیاسی حکمت عملی ہے،سربراہ جے یوآئی
26ویں آئینی ترمیم کے وقت جو ڈرافٹ لایا گیا وہ کالا ناگ تھا جس کے ذریعے آئین و قانون معطل ہوجاتا، مدارس کے حوالے سے جو بل دونوں ایوانوں سے پاس ہوا اس پر ابھی تک صدر مملکت نے دستخط نہیں کیے، کم سیٹیں ہونے سے آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو ہمارے پاس آنا پڑا،پاکستان میں دہشتگردی سمیت دیگر معاملات پر افغانستان سے بامعنی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، نائن الیون کے بعد امریکا جب افغانستان میں اترا تو ہم نے اسے اڈے فراہم کیے، اس وقت پرویز مشرف واشنگٹن کی نظروں میں مقبول ہونے کے لیے کسی کی بات نہیں سنتے تھے،انٹرویو
اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ مسلسل احتجاجی کالز سے اہمیت نہیں رہتی، پی ٹی آئی اس طرح بے نقاب ہورہی ہے،پارٹی میں موثر حکمت عملی بنانے والے لوگ نہیں ہیں،پی ٹی آئی کیساتھ ہماری تلخیاں کم ہورہی ہیں، اب ہم اپوزیشن کیساتھ بھی اپوزیشن تو نہیں کرسکتے،26ویں آئینی ترمیم کے وقت جو ڈرافٹ لایا گیا وہ کالا ناگ تھا جس کے ذریعے آئین و قانون معطل ہوجاتا، مدارس کے حوالے سے جو بل دونوں ایوانوں سے پاس ہوا اس پر ابھی تک صدر مملکت نے دستخط نہیں کیے،عام انتخابات میں ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی،کم سیٹیں ہونے کی وجہ سے بھی حکومت کو آئینی ترمیم کے وقت ہمارے پاس آنا پڑا،پاکستان میں دہشتگردی سمیت دیگر معاملات پر افغانستان سے بامعنی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، نائن الیون کے بعد امریکا جب افغانستان میں اترا تو ہم نے اسے اڈے فراہم کیے، اس وقت پرویز مشرف واشنگٹن کی نظروں میں مقبول ہونے کیلئے کسی کی بات نہیں سنتے تھے۔
نجی ٹی وی کودیئے گئے ایک انٹرویومیں سربراہ جے یوآئی مولانافضل الرحمن نے کہاکہ پی ٹی آئی کی جانب سے دی جانے والی احتجاجی کال کا وقت مناسب نہیں، مسلسل احتجاجی کالز سے اہمیت نہیں رہتی، اگر ایسا کام کرنا ہے تو اسے پختہ طریقے سے کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں پورے ملک میں 14ملین مارچ کیے، ہم اگر احتجاجی حکمت عملی اپناتے ہیں تو اس کو موثر طریقے سے سرانجام دیتے ہیں، اس دوران احتمال جیسا کہ ان مظاہروں سے ہونے والے نقصانات کے دروازے بند کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم نہ روڈ بند کرتے تھے اور نہ املاک کو نقصان پہنچاتے تھے جس کی وجہ سے ریاست کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یہ اپنے احتجاج ضرور ریکارڈ کرا رہے ہیں لیکن املاک کو نقصان نہیں پہنچا رہے، پی ٹی آئی میں ایسی حکمت عملی بنانے والے لوگ موجود نہیں ہیں۔
سربراہ جے یوآئی نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کو جلسے، احتجاج اور مظاہرے کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے لیکن جس انداز کیساتھ یہ بے نقاب ہورہے ہیں وہ اچھی بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہماری تلخیاں تھیں جو کم ہورہی ہیں، اب ہم اپوزیشن کے ساتھ بھی اپوزیشن تو نہیں کرسکتے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دو جماعتیں اگر اپوزیشن میں بیٹھ گئی ہیں تو اس کا فائدہ اٹھانا ہی حقیقت میں سیاسی حکمت عملی ہے، تلخیوں سے اعتدال کی طرف آنا بہترین سیاست ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ26ویں آئینی ترمیم کے وقت جو ڈرافٹ لایا گیا وہ کالا ناگ تھا جس کے ذریعے آئین و قانون معطل ہوجاتا، تاہم ہم نے بعد میں تمام متنازعہ شقوں کو اس سے نکال دیا۔انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے وقت مجھ پر ایک ماہ تک بہت پریشر رہا، تاہم ہم نے بات چیت کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل نکالا۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ مدارس کے حوالے سے جو بل دونوں ایوانوں سے پاس ہوا اس پر ابھی تک صدر مملکت نے دستخط نہیں کیے، اس حوالے سے میں نے وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے بھی بات کی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی حکومت سے ناراضگی سے متعلق سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ پیپلز پارٹی کے حوالے سے اگر کوئی کہے یہ حکومت میں ہیں تو میں اس بات کو نہیں مانتا کیونکہ یہ جماعت حکومت کا سہارا ہے اور اسی وجہ سے اس طرح کے مرحلے آتے رہیں گے۔
وی پی این کی بندش کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اسلام نظریاتی کونسل نے اس حوالے سے غیرضروری بیان دیا، یہ کام حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی سمیت دیگر معاملات پر افغانستان سے بامعنی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، میں نے جب افغانستان کا دورہ کیا تو تمام چیزوں پر اتفاق ہوا تھا لیکن بعد میں پھر معلوم نہیں کہ کس کی نظر لگ گئی۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نائن الیون کے بعد امریکا جب افغانستان میں اترا تو ہم نے اسے اڈے فراہم کیے، اس وقت پرویز مشرف واشنگٹن کی نظروں میں مقبول ہونے کے لیے کسی کی بات نہیں سنتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ امریکا جب افغانستان سے نکلا تو دنیا کو ایک تاثر ملا کہ مسلح لوگوں کی جیت ہوئی اور امریکا ہار گیا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عام انتخابات میں ہمارے ساتھ بدترین دھاندلی کی گئی، اور ہماری سیٹوں کو گزشتہ دور سے بھی کم کیا گیا لیکن حکومت کو آئینی ترمیم کے وقت پھر ہمارے پاس آنا پڑا کیوں کہ ان کے پاس اکثریت نہیں تھی۔