Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

محبتوں کا پیکر، اِک مردِ آزاد کی یاد میں

علی عباس

 

فضایہ کالج کلرکہار میں دوران تعلیم ہم نے ایک سال زندگی کی رنگینیوں کو بڑے قریب سے دیکھا۔کالج میں اچھے دوست بھی مل گئے اور ہاسٹل لائف کو بھرپور انداز میں بسر کیا۔ وہاں جانے اور داخلہ لینے کا مقصد تو تعلیم حاصل کرنا تھا مگر ہم رنگینیاں سمیٹتے رہے اور ICS کی ڈگری ہاتھ نہ لگ سکی۔اس طرح جب ایک سال بعد واپسی ہوئی تو بہت سے تجربات اور دوستوں کا خزانہ ہمارے پاس موجود تھا۔ جس مقصد میں فضائیہ کالج سے کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے اب اس کے حصول کے لیے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چکوال کا رخ کرنا تھا۔ طے یہ پایا کہ جب تک کالج میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز نہیں ہو جاتا تب تک مزید وقت ضائع نہ کیا جائے اور فزکس اور ریاضی کی ٹیوشن شروع کر دی جائے۔ پروفیسر فضل عباس اعوان اور مسعود احمد جنجوعہ گورنمنٹ کالج کے بالکل سامنے امدادیہ مسجد والی گلی میں نیوٹن اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ ہم صبح سویرے سورج طلوع ہونے سے قبل ہی چکوال پہنچ جاتے۔ ناصر کار ہوم کے ساتھ ایک ہوٹل ہوا کرتا تھا جس کا مالک ہوٹل کے سامنے سڑک کنارے کرسیاں اور میز سجا دیتا۔ اساتذہ کا انتظار کرنے کے لیے ہم بھی وہیں بیٹھ جاتے۔ انہی دنوں ہماری ایک نفیس مزاج بزرگ سے اسی ہوٹل پر ملاقات ہو گئی جو روزانہ صبح واک کرنے کے لیے اپنے گھر واقع گلبرگ ٹاؤن تحصیل چوک سے نکلتے اور پنڈی روڈ پر واک کے بعد واپسی پر اس ہوٹل پر ایک کپ چائے کے ساتھ ناشتے سے پہلے والی دوائی لیے۔ لمبا قد، نورانی چہرہ، بالوں میں سفیدی اور اجلے سفید کپڑوں میں ملبوس وہ مشفق شخصیت چوہدری محمد آزاد ایڈووکیٹ تھے۔ روزانہ کی واک ان کامعمول تھی اور ہوٹل کی ان کرسیوں پر بیٹھ کر چوہدری آزاد صاحب کا انتظار کرنا ہمارا معمول۔تقریباً پانچ، چھ ماہ تک تو روز اسی طرح ملاقات ہوتی رہی پھر جب کالج میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز ہوا تو ہم جو پہلے ہی کالج کے سحر انگیز ماحول میں جکڑے جا چکے تھے کالج کی رنگینیوں میں ایسے مگن ہوئے کہ اپنا معمول بدل لیا۔ اب ہم سڑک کنارے ہوٹل میں بیٹھنے کی بجائے سامنے کالج میں چلے جاتے اور برگد کے درخت کے نیچے جا بیٹھتے جہاں ہر وقت من چلوں کی خوش گپیاں جاری ہوتیں۔ٹیوشن،کالج میں کلاسز، فارغ اوقات میں برگد کے گھنے سایہ دار پیڑ کے نیچے بیٹھنا، لائبریری میں لوکل اخبار پڑھنا، تنظیمی معاملات دیکھنااوربرادرم علیم کے ساتھ شہر بھر میں آوارہ گردی کرنا ہمارامعمول بن گیا اور اسی دوران چوہدری آزاد صاحب سے روزانہ ملاقات گئے دنوں کا قصہ بن گئی۔ کبھی کبھار تحصیل چوک پر اچانک ملاقات ہو جاتی تو چوہدری صاحب پیار سے پوچھتے”ہاں بھائی پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟ کالج میں کوئی مسئلہ تو نہیں؟“ ہم دونوں سوالوں کے مثبت جواب دیتے تو کہتے”کوئی بھی مسئلہ ہوتو بتانا میرا بیٹا شاہد آزاد کالج میں پڑھاتا ہے“ میں اس پر بھی ”جی ٹھیک ہے“کہتا اور چلتا بنتا۔ کبھی کبھار ایسے ہی اچانک ملاقات ہو جاتی تو اپنے پوتوں کے بارے میں پوچھتے جو میرے کلاس فیلو تھے کہ ”میرے پوتے کیسا پڑھتے ہیں؟ بڑے شیطان ہیں“میں ہنس دیتا اور کہتا کہ”جی بہت اچھا پڑھتے ہیں“سمجھ وہ بھی جاتے کہ موصوف شاید کلاس میں کم ہی جاتا ہے مگر خاموش رہتے ان کایہی انداز منفرد تھا۔
چکوال کی سیاست میں جو تبدیلی عوامی گروپ کے ذریعے1985ء میں رونما ہوئی، چوہدری آزاد ایڈووکیٹ اس عوامی گروپ کا نہ صرف حصہ تھے بلکہ ایک اہم رکن بھی تھے۔ عوامی گروپ کے باقاعدہ اجلاس کی کاروائی کو اپنے پاس لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اہم اوراق تاریخ کا حصہ بن گئے۔جنرل(ر) عبدالمجید نے اپنی سوانح حیات ”ہم بھی وہاں موجود تھے“میں ان تحریروں کے عکس من و عن شائع کیے۔چوہدری آزاد عوامی گروپ کے ہمراہ جنرل مجید کو سیاست میں لانے کے لیے شاید پیش پیش تھے مگر جب یہ”حادثہ“برپا ہو گیا اور جنرل مجید ملک مرحوم نے رنگ بدلا تو جلد ہی چوہدری آزاد جنرل گروپ سے”آزاد“ ہوکرسرداران چکوال کے ”قیدی“ بن گئے اور یہ قید عمر قید ثابت ہوئی۔ پرویز مشرف دور میں اپنی یونین کونسل سے ناظم منتخب ہو کر نہ صرف ترقیاتی کام کروائے بلکہ غرباء، مساکین کی مالی معاونت کے لیے بھی ایک نظام تشکیل دیا۔ اپنے بیٹے سعید اعجاز کوسیاسی جانشین مقرر کیا جو2015ء کی بلدیاتی انتخابات میں واضح برتری سے چیئرمین یونین کونسل سہگل آباد منتخب ہوئے۔ اپنی زندگی میں ہر حوالے سے عروج دیکھنے والا ایک درویش صفت انسان جو22سال کی عمر میں ایوب دور میں اس وقت کا سب سے کم عمر بی ڈی ممبر منتخب ہوا اور پھر یونین کونسل کا چیئرمین اور ناظم بنا۔ جس شخص نے عوامی گروپ کے ذریعے چکوال کی سیاست میں تبدیلی برپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اتنی کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود گلی میں پڑے کچرے کو اکٹھا کر کے آگ لگاتاکوئی شخص نظر آتا تو وہ چوہدری آزاد ایڈووکیٹ ہی ہو سکتے تھے۔
9اگست2015کو موت کا فرشتہ آیا اور چوہدری آزاد ایڈووکیٹ کو دنیا کی جھنجھٹوں سے آزاد کر کے راہی ملک عدم بنا کر چلتا بنا۔ مجھے وقت پر خبر نہ ہو سکی کہ جنازے میں شرکت کر کے دیکھتا کہ چوہدری صاحب کا آخری دیدارمیں کیسے دکھتے ہیں۔استاد محترم شاہد آزاد صاحب کو شاید معلوم نہ تھا کہ ناچیز بھی چوہدری صاحب کے پرستاروں میں سے ہے اس لیے شاید انہوں نے بھی اطلاع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ افسوس کے لیے شاہد آزاد صاحب کے پاس حاضر ہوا تو اس کشمکش میں تھا کہ میں نے افسوس کرنا ہوگا یا شاہد آزاد صاحب نے کہ چوہدری صاحب مجھ سے بھی تو بچوں کی طرح ہی پیار کیا کرتے تھے بہرحال رسم دنیا تھی افسوس مجھے ہی کرنا تھا۔ شاہد آزاد صاحب سے وعدہ کیا کہ میں اپنی یادوں کو قلم بند کر کے چوہدری صاحب کو خراج تحسین پیش کرونگا۔ مگر سستی کی وجہ سے تین سال تک جب وعدہ وفا نہ ہو سکا تو شاہد آزاد صاحب نے یاددہانی کرائی شرمندگی بھی ہوئی اور تب تک یادوں کے آئینے پر کافی گرد جم چکی تھی جو کچھ یاد تھا وہ نوک قلم سے سپردقرطاس کیا اور چوہدری صاحب کا قرض اتارنا چاہا مگر محبتوں کے قرض بھی کبھی اترتے ہیں؟؟؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More