اسلام آباد (نیوزپلس) قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 20رمضان فتح مکہ کے موقع پر کہنا تھا کہ فتح مکہ، شرک کے سیاسی اقتدار کے زوال کا نقطہ آغاز ہے اور مکہ اسلام کے مقابلے میں 20 سالہ مزاحمت کے بعد اسلام کے زیر نگیں آیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی جاری کردہ پریس ریلز میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہا نبی اکرمؑ نے دس ہزار کے لشکر کے ہمراہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے مکہ سے باہر” مرالظہران “ پر لشکر اسلام نے پڑاﺅ کیا اس عظیم لشکرکو دیکھ کر مشرکین مکہ کے سردار خوف زدہ ہوگئے اور رسول گرامی اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کردیئے ۔ مکہ کی تسخیر ایک عظیم فتح تھی جو بغیر جنگ کے فتح کا نمایاں مصداق تھی ۔
علامہ ساجد نقو ی نے مزید کہا کہ فتح مکہ کے بعد مکہ کی معاشرتی ، دینی ، علمی زندگی میں واضح فرق آیا اس سے قبل وہاں موجود نہ تھا اس سے قبل وہاں قبائلی تعصب،اپنے آباداجداد پر فخر و مباھات اور اپنے دشمن سے انتقام وغیرہ غیر اسلامی اقدار اس معاشرے کے مزاج پر حاکم تھیں جس کو اسلامی اقدار نے یکسر بدل دیا،وہ معاشرہ جہاں نفرتوں کا بازار گرم تھا اخوت و براری میں تبدیل ہوگیا نبی کریم کی سیرت کے نقوش اس معاشرے پر حاکم ہوگئے جو رہتی دنیا تک کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ،نبی کریم کے پا ک و مطہر کر دار نے جاہلیت کے گذشتہ تمام کر داروں کی نفی کردی ۔ انہوں نے کہاکہ جب نبی کریم مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمارہے تھے تو اسی وقت آنحضرت رنجیدہ خاطرتھے تو رب کریم نے ارشاد فرمایااے میرے حبیب ہم آپ کو فاتح کی حیثیت سے پلٹائیں گے ،فتح مکہ در حقیقت وعدہ الہٰی کے پورا ہونے کا دن ہے ،فتح مکہ اسلام اور اس کے پیروکاروں کیلئے ایک عظیم فتح و کامیابی کی نوید بن کر آیا اسلام کا آفاقی پیغام دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچااور اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے آیا ۔فتح مکہ کے عظیم دروس میں سے ایک درس یہ بھی ملتا ہے کہ ہر جگہ جنگ کے ہتھیار اٹھانا ہی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا بلکہ کہیں صلح و آتشی کا راستہ اختیار کرکے بھی انسان بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔
انہوںنے مزید کہا کہ مکہ مکرمہ فتح کے بعد اب کفار کی دسترس سے نکل کر مسلمانوں کی عملداری میں آگیا تھا اس طرح شرک کا گڑھ کا خاتمہ کرنے اور پھر دین اسلام کے پیغام کو دنیاکے دیگر کونے کونے تک پہنچانے میں مدد ملی جزیرہ العرب میں مسلمانوں کی طاقت سب سے بڑی تھی کوئی قبائلی طاقت اس وقت سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی مگر اس وقت اسلام نے خوبصورت کر دار و عمل کے ذریعے عالم انسانیت کے دلوں پر حکومت حاصل کی آج بھی حکمران اور رہبروں کو اسلام کے اس عظیم پیغام صلح و امن کو اجاگر کرتے ہوئے اسلام کے حقیقی روشن چہرہ کو دنیا کے سامنے دکھانا چاہیے تاکہ آج عالم اسلام و انسانیت کے مسائل کا حل ممکن ہوسکے ۔