لاہور (نیوز پلس)پاکستان عوامی تحریک کے سربرا،مذہبی اسکالر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سیاست سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان انہوں نے لاہور میں منہاج القرآن سیکریٹریٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔طاہر القادری نے کہا کہ انہوں نے سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ فیصلہ انہوں نے لاہور میں اپنے حالیہ قیام کے دوران کیا تھا۔بعد ازاں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنے تعلیمی وعدوں اور صحت کی خرابی کی وجہ سے سیاست سے علیحدہ ہورہے ہیں۔قبل ازیں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں طاہر القادری نے کہا ان کی جماعت کی ورکنگ کونسل، فیڈرل کونسل اور تھینک ٹینک سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ اس دوران یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس ریٹائرمنٹ کا اعلان مناسب وقت پر حالات کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔علامہ طاہر القادری نے اپنی سیاست میں واپسی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ ملکی سیاست میں واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی کی چیئرمین شپ سے بھی علیحدہ ہورہے ہیں، اپنے بیٹوں میں سے کسی کو پارٹی کی کمان نہیں دیں گے، اس کا فیصلہ پارٹی کی شوریٰ کرے گی۔ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر قانونی جنگ جاری ہے اور وہ جاری رہے گی۔اپنے خطاب کے آغاز میں معرف مذہبی اسکالر کا کہنا تھا کہ ان کا سیاست میں آنے کا مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ انہوں نے اصلاحی سیاست کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اپنی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے قیام کے بعد 1990 کی دہائی میں ملک بھر میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے تعلیمی مراکز قائم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی اور ملک بھر میں تعلیم دینے کی ایک تحریک شروع کی گئی جس کے تحت 5 ہزار سے زائد تعلیمی مراکز قائم ہوئے۔طاہر القادری نے بتایا کہ انہوں نے 2002 میں پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ وہ صرف 2 سال قومی اسمبلی کے ممبر رہے اور اس دوران انہوں نے سیاست کی حقیقت، پارلیمنٹ کی بتے عملی اور بے حسی کو بہت قریب سے دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ صرف بحث و مباحثے کی جگہ ہے۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ‘اسمبلیوں میں بیٹھنے والے لوگ اپنی مراعات اور مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، یہاں ملکی ایجنڈا تشکیل نہیں دیا جاتا اور اسمبلی میں ملک و قوم کی بہتری کے علاوہ ہر بات ہوتی ہے، اسی وجہ سے اپنی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔‘طاہر القادری نے کہا کہ انہوں نے 2004 میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے بعد پاکستان عوامی تحریک کے پیلٹ فارم سے اصلاحی سیاست کی جدوجہد شروع کی اور 8 سال بعد 2012 میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک سال بعد 2013 میں ان کی جماعت نے لانگ مارچ کیا اور اس دوران پوری قوم نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی گونج سنی، اس سے قبل قانونی ماہرین کے علاوہ کوئی اس کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ یہ شقیں کیا ہیں اور ان میں کیا ہے۔منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے جگہ نہیں ہے، یہاں صرف بدمعاش لوگوں کی جگہ ہے جو پارٹیوں سے ٹکٹ خریدتے ہیں اور اپنے پیسے سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔اپنی بات جو جاری رکھتے ہوئے مذہبی اسکالر کا کہنا تھا کہ ’جس پارٹی کا سورج طلوع ہونے والا ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں اور 90 فیصد وہی افراد دوبارہ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور ایسے افراد کا آئین پاکستان، قوم، اخلاقیات، امانت و دیانت کے ساتھ کوئی عزم نہیں ہوتا، وہ صرف لوٹ مار کے لیے اقتدار لیتے ہیں۔یاد رہے کہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے دوران طاہر القادری کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک نے لانگ مارچ کیے اور اس دوران متعلقہ حکومتوں سے اپنے مطالبات پر معاہدے بھی کیے، تاہم اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی حکومتوں نے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی