نیویارک (نیوز پلس) وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے 75 ویں جنرل اسمبلی اجلاس سے تقریباً 27 منٹ پر محیط اپنے خطاب میں کورونا وائرس، خطے میں اسلحے کی دوڑ، گستاخانہ خاکوں کی اشاعت، کشمیر میں بھارتی مظالم، فلسطین اسرائیل تنازع، ماحولیات اور اقوام متحدہ و سلامتی کونسل میں بڑے پیمانے پر اصلاحات جیسے اہم معاملات پر اہم اور جامع گفتگو کی۔وزیراعظم کا ریکارڈ شدہ خطاب نشر کرنے سے قبل جنرل اسمبلی میں موجود اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے ابتدائیہ کلمات ادا کیے۔
وزیر اعظم نے دنیا کی توجہ ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کی جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے۔
مسئلہ کشمیر پر وزیراعظم عمران خان نے عالمی سطح پر اجاگر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ستر دہائیوں سے بھارت جموں کشمیر پر قابض ہے اور بار بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں نوجوانوں کو اٹھایا گیا۔ بھارتی فوج کے مظالم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی رپورٹ میں درج ہیں۔ گزشتہ سال 5 اگست کو یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو بھارت نے تبدیل کیا گیا۔ 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کرنے کیلئے فوج کو تعینات کیا گیا۔ کشمیری میڈیا اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے کشمیریوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ پرامن مظاہرین پر بھارتی افواج نے پیلٹ گن سے حملے کیے۔ افسوس ہے کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں ایسی کارروائیاں بلا خوف وخطر جاری ہیں۔ عالمی برادری کو انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جرم ہے۔ سلامتی کونسل مشرقی تیمور میں اپنا کردار ادا کر چکی ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کیلئے اقوام متحدہ یہاں بھی کردار ادا کرے۔ پاکستان ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا خواہاں رہا ہے۔ بھارت سب سے پہلے کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرے۔ کشمیر کا مسئلہ کشمیر کے عوام کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
بھارت میں اسلاموفوبیا کا فروغ پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ بھارت میں اسلاموفوبیا ریاستی پالیسی بن گئی ہے۔ بی جے پی انتہا پسند آر ایس ایس کے نظریے پر قائم ہے۔ گاندھی اور نہرو کا نظریہ آر ایس ایس کے نظریے سے بدل چکا ہے۔ اسی نظریے نے بابری مسجد کو شہید کیا۔ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ 2002ء میں گجرات میں نریندر مودی کی سرپرستی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 2007ء میں سمجھوتا ایکسپریس میں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ آسام میں 20 لاکھ مسلمان اپنی شہریت سے محروم کر دیے گئے۔ مسلمانوں کا بائیکاٹ کرکے ان کا کاروبار تباہ کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری ان جرائم کی تحقیقات کرے۔
لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت اپنے غیر قانونی اقدام سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ فاشسٹ بھارتی حکومت کی جانب سے اشتعال انگیزی کی گئی تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ کشمیر کو صاف طور پر نیوکیلئر فلیش پوائنٹ کہا جا رہا ہے۔ اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کی تو قوم بھرپور جواب دیگی۔ پاکستان ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر بھارتی جارحیت کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
مسئلہ فلسطین پر اپنا ردعمل ہوئے کہنا تھا کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل خطے اور دنیا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان فلسطین میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی قیام جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو، اس مسئلے کا حل ہے۔ پاکستان فلسطین کے مسئلے پر فلسطینوں کی حمایت کرتا رہے گا۔
پاکستان خطے میں امن واستحکام پر وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے کیونکہ تنازعات بڑھنے کے بعد شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ نئی مخالف قوتوں کے درمیان اسلحہ کی دوڑ جاری ہے۔ شہریوں کو حقوق دینے کیلئے امن کی ضرورت ہے۔ دنیا میں جب تک ہر شخص محفوظ نہیں تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہمسائیوں کیساتھ اچھے تعلقات اور مسائل کا حل بات چیت ہے۔ اسی صورت میں ہم عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ فوجی قبضے اور توسیع پسندانہ رویے سے دنیا میں امن داؤ پر لگا ہے۔
کورونا وائرس کیخلاف پاکستان کے قابل تقلید اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی کامیاب پالیسیکی بدولت ہم ناصرف کورونا وائرس سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے بلکہ معیشت کو بھی استحکام دیا۔ ترقی پذیر ملکوں کو قرضوں کی ادائیگی میں مہلت سے ریلیف ملا۔ پاکستان میں ہم نے سخت لاک ڈاؤن نہیں بلکہ سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی۔ آج پاکستان کورونا پر قابو پانے والے ممالک کی فہرست میں کھڑا ہے۔ ہم نے ناصرف وبا پر قابو پایا معیشت کو بھی مضبوط کیا۔ 8 ارب ڈالر سے صحت کی سہولیات غریب عوام تک پہنچائیں۔ ہم نے فوری طور پر زراعت اور تعمیراتی صنعت کو کھولا۔ حکومتی پالیسیوں کا مقصد شہریوں کے معیار زندگی میں اضافہ کرنا ہے۔ جب سے ہماری حکومت آئی ہم نے لوگوں کی بہتری کیلئے کوششیں کیں۔ ہم نے حضرت محمد ﷺ کی ریاست مدینہ کے تصور پر نئے پاکستان کا ماڈل تشکیل دیا ہے۔
منی لانڈرنگ کو امیر ممالک کا تحفظ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امیر ممالک منی لانڈرنگ کرنے والوں کو تحفظ دے کر انصاف اور انسانی حقوق کی بات نہیں کر سکتے۔ جتنی امداد ترقی پذیر ملکوں کو ملتی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ رقم باہر جاتی ہے۔ جنرل اسمبلی کو غیر قانونی رقوم کی منتقلی کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے مناسب فریم ورک تشکیل دینا چاہیے۔ ترقی پذیر ملکوں کی دولت بیرون ملک منتقل کی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس منی لانڈرنگ کو روکنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ امیر ملکوں میں اس مجرمانہ سرگرمی روکنے کی ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک نے رقوم کی منتقلی ان کی غربت کا باعث بن رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی پر بات کرتے ہوئےانہوں کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے آنے والی نسلوں کو خطرات ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا عالمی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ ہماری حکومت نے 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا۔ پیرس معاہدے پر عملدرآمد انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار نہیں لیکن اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔