سینیٹ میں 26ویں آئینی ترمیم 2 تہائی اکثریت سے منظور
ترمیم کے حق میں 65 ووٹ جبکہ 4 ووٹ مخالفت میں پڑے
اسلام آباد: سینیٹ نے 26ویں آئینی ترمیم منظور کر لی ۔ آئینی ترمیم کے حق میں 65 ووٹ پڑے جبکہ 4 ووٹ مخالفت میں ڈالے گئے۔سینیٹ نے 26ویں آئینی ترمیم میں شامل 22 شقوں کو مرحلہ وار منظور کیا ۔
سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت شروع ہوا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیم سے متعلق بل ایوان میں پیش کیا۔آئینی ترامیم پر بحث کے بعد ووٹنگ کا عمل ہوا۔ چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔
اس دوران سینیٹ سے مہمانوں کی گیلری کو بھی خرالی کرا لیا گیا۔اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ رانا ثنا اللہ اور اٹارنی جنرل کو بھی ایوان سے باہر بھیجا جائے۔ جس پر حکومتی ارکان نے کہا کہ یہاں بیٹھنا ان کا آئینی حق ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل گروپ کی خاتون نسیمہ نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔پی ٹی آئی کے علامہ ناصر عباس، حامد خان، علی ظفر اور عون عباس بپی نے ترمیم کی مخالفت میں ووٹ ڈالے۔آئینی ترامیم کو شق وار منظور کیا گیا۔ 26ویں آئینی ترمیمی بل کے ذریعے سود ختم کرنے کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی۔ آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین ایوان سے باہر چلے گئے۔
اس سے قبل اجلاس شروع ہوتے ہی وقفہ سوالات معطل کیے گئے۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی۔ جسے اکثریتی رائے سے منظور کر لیا گیا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی ترمیم پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔
آئینی ترمیم ایوان میں پیش کر کے بحث کی جائے۔انہوں نے کہا کہ سمجھتا ہوں کہ پارلیمان کی بالادستی اور آزادی پر ایک طرح سے کھلا عدم اعتماد بھی تھا اور حملے سے کم نہیں تھا۔ عجلت میں 19ویں ترمیم کی گئی۔ اور اس میں کمپوزیشن کو چینج کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمان اور دیگر تنظیموں پر تنقید کی اور کہا گیا کہ 18 ویں ترمیم روح نہیں تو اس کے قریب تر کیا جائے۔ پچھلے 6 سے 8 ہفتوں میں ڈسکشنز ہوئیں اور اس کے مطابق 4 سینئر ججز مشتمل ہونے کے ساتھ 4 پارلیمانی ممبرز جائیں گے۔ جن میں 2 اس ایوان سے اور 2 قومی اسمبلی سے شامل ہوں گے۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جس میں کمیشن کا حجم ایک ادارے کی طرف یعنی اعلی عدالت کی طرف کر دیا گیا۔ اور پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات میں بھی کمی کر دی گئی۔ طے کیا گیا کہ آئینی عدالت کے بجائے آئینی بنچز کا تشکیل کر دیا جائے۔سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مسودہ جو سامنے آیا ہے میں وسوق سے نہیں کہہ سکتا تاہم جو آئینی ترمیم کا مسودہ آیا ہے مجھے لگا کہ بہت سارے لوگوں نے ایوان میں پڑھا بھی نہیں۔ اگر میں پوچھوں تو شاید بہت سارے لوگ اس کا جواب نہ دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کہنا چاہوں گا جو ابھی پڑھا اس میں بھی سنجیدہ غلطیاں ہیں۔ ایسی غلطیاں جنہیں واپس کرنے میں بہت نقصان ہو گا اور آپ نے جو آئینی عدالت بنانی تھی وہ نہیں بنائی لیکن اس کو آئینی بنچ کا نام دے دیا۔پیپلز پارٹی رہنما سینیٹر شیریں رحمان نے کہا کہ بلاول بھٹو نے بار بار سمجھایا کہ پارلیمان اپنے حقوق مانگے تو کہا جاتا ہے سیاسی مقاصد کے لیے کر رہے ہیں۔ ہم فخر سے سیاست کرتے ہیں اور بہت سے لوگ قربانی دے کر آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں حق نہیں کہ پارلیمان اپنے اختیار کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کریں۔ جبکہ ہم کالے یا سفید ناگ کے سامنے بین نہیں بجاتے، ہم اسے وہیں ختم کرتے ہیں۔
شیریں رحمان نے کہا کہ دنیا میں کہیں یہ نہیں ہوتا کہ ججز خود اپنی تعیناتی کریں بلکہ جوڈیشل ایڈوائزری کمیٹیز ہوتی ہیں۔سینیٹر مولانا عطا الرحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اگر بچایا ہے تو اس آئین نے بچایا۔ اور پارلیمان کی بنیاد میں بھی وہی آئین ہے۔ کوئی بھی اس میں رخنہ ڈالے یا ایسی چیز ڈالی جائے کہ مستقبل میں خطرہ بنے۔ اسٹیبلشمنٹ نے بارہا مرتبہ کوشش کی کہ کسی طریقے سے آئین میں ایسی چیز ڈال دی جائے۔ کہ مستقبل میں ملک محفوظ نہ رہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیت علما اسلام کو وہی خطرہ رہا۔ اور ہم نے ان ترامیم اور آئین کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ ہماری قیادت نے اگر اسے سانپ سے تشبیہ دی ہے تو اس میں خطرہ تھا۔ دیگر لوگوں نے بھی جنہوں نے ان ترامیم پر تجاویز دیں اور پی ٹی آئی کے ساتھیوں سے کہوں گا کہ ملک کے لیے ہم کام کر رہے ہیں 100 نہ سہی 80 فیصد ہمارا ساتھ دیں۔
مولانا عطا الرحمان نے کہا کہ جے یو آئی اس ترمیم کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔ اور ترامیم کو ووٹ کرے گی۔ جو کمی اس میں رہ گئی اسے سیدھا کرنے کا بھی موقع دیا جائے۔