تحریر: خاور عباس شاہ
سمندر زندگی کی بنیاد
سمندر زندگی کی بنیاد ہیں یہ اہم الفاظ جو تمام ماحولیاتی اورموسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے خطرات کا احاطہ کرتے ہیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کے ہیں دنیا جس آہستہ آہستہ تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اس میں اہم وجہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی ہے جس تقریباً پوری دنیا اس وقت لپیٹ میں آ چکی ہے، پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی کے بھینٹ چڑھا ہے جس سے پاکستان کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بات ہو رہی سمندروں کی جو اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے لپیٹ میں ہیں۔ اس حوالے سے گوتریس نے کہا تھا کہ انسانی سرگرمی کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلی زمین کو گرم کر رہی ہے، موسمی ماحول اور سمندری دھاروں میں خلل پیدا کر رہی ہے اور سمندری ماحولی نظام اور ان میں رہنے والی انواع کو تبدیل کیے دیتی ہے۔ سمندر بقائے انسان کہیں تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ سمندر کے زریعے انسان کا روزگار جڑا ہے یہ سمندر دنیا کے تین ارب افراد کے لیے خوراک کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں تاہم موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سمندر میں حد سے زیادہ ماہی گیری بھی مچھلیوں کی پیداوار اور ان کے ذخائر میں تیزی سے کمی کا باعث بن رہی ہے۔

انسانی سرگرمی جیسے ایسے ممالک جہاں سممدر میں فوجی مشقیں اور ان کی وجہ سے تیزابیت بڑھنے سے سمندری حیاتیاتی تنوع بھی خطرے سے دوچار ہے، ساحلی پانی کیمیائی مادوں، پلاسٹک اور انسانوں کے پھیلائے گئے کچرے سے سمندر آلودہ ہو چکے ہیں۔ اس وقت سمندر پلاسٹک کی آلودگی میں گھرا ہوا ہے یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہے جو اپنے ہاتھوں سے اپنے روزگار و صحت سمیت دیگر ضرویات کو خود چھین رہا ہے کیونکہ سمندر ہی انسان کے لئے ایسے وسائل پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں ہیں جن سے بنی نو انسانی آبادیوں ان کی خوشحالی اور صحت کو برقرار رہنے میں مدد ملتی ہے۔ دنیا بھر میں ایک بلین سے زیادہ لوگوں کے پروٹین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہی مچھلی ہے۔ جو انسان سمجھ نہیں پا رہا یا سمجھنا نہیں چاہتا۔ پلاسٹک جو تقریباً ہر مصنوعات میں پایا جاتا ہے پلاسٹک کی پیداوار میں ہوشربا اضافہ اور اس کی بڑھتی انڈسٹری بھی تباہی کا باعث ہے اس انڈسٹری سے ہزارو ں لوگوں کا روزگار جڑا ہے تاہم دنیا کے تمام حکومتوں کو اس کے متبادل حل نکالنا ہو گا، اس کی ساخت اور استعمال تیزی سے پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، اور پلاسٹک کے فضلے کا مسئلہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ پلاسٹک کے مواد بہت پیچیدہ ہیں مینوفیکچررز مختلف پروڈکٹس اور ایپلی کیشنز بنانے کے لیے پولیمر، ایڈیٹیو، رنگینٹس، چپکنے والی اشیاء اور دیگر مواد کو ملاتے ہیں۔ یہ اکثر دوسری صورت میں دوبارہ استعمال کی جانے والی مصنوعات کو ناقابلِ استعمال واحد استعمال آلودگیوں میں بدل دیتا ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی نہ صرف آبی ماحولیاتی نظام اور اس کی انواع کی صحت کو متاثر کرتی ہے بلکہ یہ انسانی صحت اور ان سمندری ماحول پر انحصار کرنے والوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے متعدد خطرات بھی پائے گئے ہیں جن کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پلاسٹک کی مختلف مصنوعات یا ایپلی کیشنز گرمی یا سردی کے سامنے آنے پر کھانے یا مشروبات میں کیمیکلز کو لیچ کرتی ہیں، جس سے انسانوں، جانوروں اور ماحول کو متاثر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، پلاسٹک دیگر زہریلے مادوں، بیکٹیریا اور وائرسوں کے لیے ایک ویکٹر بن سکتا ہے تاہم سمندر کے ماحول کو بچانے کے لئے اقوام متحدہ مسلسل کوششین کر رہا ہے جو سمندر کی اہمیت جو اجاگر کرنے کے لئے ہرسال 8 جون منایا جاتا ہے جو کو موسمیاتی تبدیلیوں، پلاسٹک کی آلودگی اور دیگر خطرات کے اثرات سے بچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے رکن ممالک کو سمندروں میں حیاتیاتی ماحول کے تحفظ کا تریخ ساز معاہدہ بھی طے ہوا ہے جس کا مقصد کثیر فریقی طریق کار اور موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے سمندروں کو صحت کو درپیش تباہ کن رجحانات پر قابو پانے کے لئے عالمی سطح پر کوششوں کی فتح قرار دیا گیا ہے۔ یہ اہم معاہدہ قومی دائرہ اختیار سے سمندری حیاتیاتی تنوع کے بارے میں بین الحکومتی کانفرنس بی بی این جے کے مندوبین میں طے پایا جس کے لئے اقوام متحدہ کی سہولت کاری سے ہونے والے مذاکرات 2004 سے جاری تھے۔ ‘کھلے سمندروں کا معاہدہ’ کے نام سے معروف اس قانونی فریم ورک کے تحت دنیا کے 30 فیصد سمندر محفوظ علاقے قرار پائیں گے، سمندری تحفظ کے لیے مزید رقم مختص کی جائے گی اور یہ معاہدہ سمندری جینیاتی ذرائع تک رسائی اور ان کے استعمال سے متعلق معاملات کا احاطہ کرے گا۔
انتونیو گوتیرش نے اپنے ترجمان کے ذریعے کہا کہ یہ معاہدہ کرہ ارض کو درپیش تین بڑے بحرانوں پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ان میں موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع اور آلودگی کے بحران شامل ہیں۔
اقوام متحدہ نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے 2015 میں انتہائی اہم اٹھایا اقوام متحدہ کے زیر نگرانی پیرس میں ماحولیاتی کانفرنس میں 2050 تک دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری تک محدود کرنے کا معاہدہ طے پا یا گیا جسے دنیا کے 140 سے زائد ممالک بشمول امریکہ نے بھی پیرس معاہدہ کی تجدید کی تھی ساتھ امریکہ نے 22 اپریل 2026 کو اس معاہدے پر دستخط بھی کئے تھے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اننتونیو گوتریس نے بہت اہم الفاظ کہے تھے کہ انتونیو گوتیرس نے کہا تھاکہ اگر کسی ملک کو 2015 میں طے کیے جانے والے پیرس معاہدہ پر شکوک ہیں، دوسرے ممالک پر لازم ہے کہ وہ اس پر ڈٹے رہیں۔
دنیا کے لیے ‘انتہائی ضروری’ وہ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرے کا سامنا کرنے کے لیے متحد ہو جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت صدر ڈونلڈ ٹڑمپ نے سات امیر ترین ملکوں کی تنظیم جی سیون کے دوسرے رہنماؤں کے برعکس پیرس معاہدے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور بہت جلد وہ اس معاملے پر امریکہ کا موقف طے کریں گے اس پہلے بھی صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے تھے کہ گلوبل وارمنگ ایک دھوکہ ہے جسے چین نے بنایا ہے اور انھوں نے پیرس معاہدے سے منحرف ہونے کی دھمکی بھی دی ہے۔ جو اب صدر ٹرمپ منتخب ہونے کے بعد اپنے صدراتی حکم نامے میں پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دستبرداری کے ایگزیکٹو حکمنامے پر بھی دستخط کر دیے ہیں۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی تاہم جو بائیڈن نے بطور صدر پہلے ہی دن 2021 میں اس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی تھی۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے پیرس معاہدے سے امریکہ کو نکالنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا کہ جو عالمی معاہدہ ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے مقاصد کو نافذ کرتا ہے۔ معاہدے کے تحت، امریکہ نے پہلے قومی سطح پر طے شدہ شراکت (این ڈی سی) جمع کرایا تھا جس میں ہم نے 2025 تک ملک کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 2005 کی سطح سے 26-28 فیصد تک کم کرنے کا عہد کیا تھا۔ اپنے اعلان میں، ٹرمپ نے کہا کہ ”آج سے،
امریکہ گرین میٹ کے تمام عمل درآمد فنڈ کو روک دے گا، یہ پہلا عالمی معاہدہ ہے جس میں تمام ممالک نے کاربن کے اخراج میں کمی کا وعدہ کیا تھا پیرس معاہدے میں اس بات پر تفاق کیا گیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرہ پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے اور اس میں کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کا بھی عزم کیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے بعد اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام سے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے ادارے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اس معاہدے سے اپنی وابستگی کی توثیق اور عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد تک رکھنے کے لیے کی جانے والی تمام موثر کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے رکنیت چھوڑنے کے باوجود عالمی برادری اس معاہدے میں طے کیے گئے اہداف کی جانب پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کیا 8 جون 2025 کو پیرس میں ٓنے سمندروں کا عالمی اور کلائمیٹ کانفرنس کے موقع پر دنیا صدر ٹرمپ کے اس اہم اقدامات کا کیا جواب دیتی ہے لیکن امرکہ خود اس وقت موسمیاتی اور ماحولیاتی ٓلودگی کا شکار ہت جس کی حالیہ مثال امریکی ریاست لاد انیجلس میں ٓگ نے تباہی پھیر دی تھی جس میں نہ صرف جنگل بلکہ ہزاروں افراد بے گھر ہوئے کرڑوں ڈالز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تمام پلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو انتونیو گوتریس کا کہنا درست ہے کہ سمندر زندگی ہے اس کے تحفظ کی ضرورت ہے۔
.