Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

سارے کام سپریم کورٹ نہیں کرسکتی ، دوسری عدالتوں کااپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سارے کام سپریم کورٹ نہیں کرسکتی ، دوسری عدالتوں کااپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
ہم زبانی جمع خرچ پر نہیں بلکہ ریکارڈپرچلیں گے، کیا اب ہم مفروضوں پر کیس چلائیں ؟
2012کا کیس ہے 2024میں بیٹھے ہوئے ہیں۔وکیل ہوا میں دلائل دے رہے ہیں۔ دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد:   چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سارے کام سپریم کورٹ نہیں کرسکتی ، دوسری عدالتوں کااپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ ہم زبانی جمع خرچ پر نہیں بلکہ ریکارڈپرچلیں گے، کیا اب ہم مفروضوں پر کیس چلائیں، 2012کا کیس ہے 2024میں بیٹھے ہوئے ہیں۔وکیل ہوا میں دلائل دے رہے ہیں۔وکیل مہربانی کرکے سر، سرکرنا بند کریں اور ہمیں سن لیں۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعرات کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے جنرل منیجر ایس این جی پی ایل پشاور کی جانب سے عنایت اللہ اوردیگر کے خلاف گیس بل کی ادائیگی کے معاملے پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ جی آگے بڑھیں گے، کتنے روپے کامعاملہ ہے، کتنا پیسہ ملوث ہے۔ اس پر وکیل کاکہنا تھاکہ 1لاکھ63ہزارروپے سے زائد کامعاملہ ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ مفت میںپیش ہورہے ہیں، کمپنی ایک لاکھ روپے کامعاملہ لارہی ہے۔

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رہنے ہی دیں ہماراوقت بھی ضائع نہ کریں او ر کمپنی کاوقت بھی ضائع نہ کریں۔چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ گیس چوری کامعاملہ ہے، چوری ثابت نہیں ہوئی، اصل بل مدعاعلیہ دیں گے۔

چیف کاکہناتھا کہ ایسا معاملہ سپریم کورٹ نہیں آنا چاہیے۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔جبکہ بینچ نے ارشاد علی ، عظمت علی شاہ اوردیگر کی جانب سے سید عمر دراز مرحوم کے لواحقین اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے تنازعہ پر دائر دودرخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر ارشاد علی اوردیگر کے وکیل نے درخواست واپس لینے کی استدعا کی جبکہ عظمت علی شاہ کے وکیل نے دلائل دیئے۔

چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہم زبانی جمع خرچ پر نہیں بلکہ ریکارڈ پر چلیں گے، کیاہم اب مفروضوں پر کیس چلائیں گے، 2012کا کیس ہے ہم 2024میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ سارے کام سپریم کورٹ نہیں کرسکتی، دوسری عدالتوں کادائرہ اختیارہوتا ہے۔

چیف جسٹس کاکہناتھا کہ وکیل ہوامیں دلائل دے رہے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھاکہ حیات آباد ٹاون شپ پشاور کے لئے 1980میں حکومت نے مجھ سے زمین خریدی۔ عدالت نے ایک درخواست واپس لینے جبکہ دوسری درخواست میرٹ پر دلائل سننے کے بعد خارج کردی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More