گستاخیاں
خالد مجید
khalidmajeed925@gmail.com
زندگی کا سفر بھی عجیب ہے پڑاؤ در پڑاؤ ۔۔۔انسان ہے کہ تھکتا ہی نہیں ہمت ‘ نیا حوصلہ اسے ایک اور سفر پر گامزن کر دیتا ہے کئی ماہ بعد ہمدم درینہ فاروقی شہزاد سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی ایک نیۓ سفر پر ایک بڑے اخبار کی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہمیشہ کی طرح زندگی کی امین مسکراہٹ کے ساتھ ملے انھیں نیت سفر پر گامزن ھونے کی مبارک دی اور پھر پرانے قصے اور یادیں یاد آ گئیں 1998 کے دوستوں کا تذکرہ ھم لے بیٹھے لاہور کی باتیں یاد بن کر سامنے آگیں ۔۔۔۔ ہم پچھلی صدی کے آخری برسوں کے دوست ہیں اسی لیے ابھی تک دوستیاں قاہم ہیں
نئی صدی کے دوستیاں تو بس میسج کے ڈیلیٹ ہونے تک کی ھیں ۔۔۔۔۔ میسج ڈیلیٹ ۔۔۔۔۔۔۔ اور دوست فنش ۔۔۔۔ خدا ھماری دوستی کو کسی بد نظر کی نظر نہ لگے
رات کے کسی پہر کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو ارشد ملک کی کتاب "حاضر اللہ سائیں ” کے لفظ گڈ مڈ ھونے لگے آنکھوں کے کنارے بھیگے بھیگے محسوس ھو رہیے تھے کیونکہ کچھ دیر پہلے ھی میں سڑکوں پر خون ھی خون دیکھ کر آیا تھا ۔۔۔۔۔ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں کی مبارک ساعتیں تھیں جب وہ سب عشاء کی نماز فارغ ہو چکے تھے اور اب رب عظیم و واحد کے حضور نوافل ادا کر رہے تھے اسی مبارک لمحے میں روئے زمین پر شیطانیت نے” یا ھو ” کا نعرہ بلند کرکے 74 سال سے جاری ظلم و ستم کی ایک اور تاریخ رقم کرنے کے لیے آن کی آن میں ان پر حملہ شروع کر دیا اور خوفناک تباہی مچادی نے انسانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی صہیونی فوج کے اسلحہ بردار سجدہ ریز انسانوں پر گولے۔۔ راکٹ ۔۔۔ میزائل برسانے لگے اور چند دن بعد آنے والی عید ماتمی ھو کر رہ گئ
اور پھر یہ چلن شروع ہوگیا صبح شام میزائل داغے جانے لگے تھے املاک تباہ ہونے لگیں بچے بوڑھے جوان اور عورتیں زندگی کی بازی ہارنے لگے ایک دلخراش چیخ و پکار تھی جو سسکتی زندگی کی تصویر دکھانے لگی ہر طرف بکھری لاشیں ۔۔۔۔ تباہ حال سڑکیں ۔۔ عمارتیں۔ روتی چلاتی عورتیں سوشل میڈیا پر نظر آنے لگیں اسی سوشل میڈیا پر ایک اور فلم نظر آنے لگی جشن مناتے لوگ ۔۔۔۔ ہزاروں یہودی جشن منا کر نہتے فلسطینیوں کی لاشوں پر خوشی کارمبا ناچنے لگے یہ ناچتے بد مست یہودی بیت المقدس پر قبضے کے 54 سال پورے ہونے کا جشن منا رہے تھے۔۔۔۔۔ خود کو اعلی و ارفع سمجھنے والے خود ساختہ مہذب کہلانے کے زوم میں مبتلا یہودیوں کی اخلاق سوز حرکتیں دیکھ کر ۔۔۔۔۔ کٹے پھٹے انسانوں کے لاشے دیکھ کر دکھ آنکھ سے آنسو بن کر نکل ہی گیا تو ساتھ ہی ساتھ ہی یادوں کے دھندلکوں سے بہت کچھ یاد آنے لگا سوچ کا پنچھی یاد کی بکل سے نکل کر لاہور کے ایرپورٹ کی منڈیروں پر جا بیٹھا جہاں 1974 پوری آب و تاب کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا
1974 تمام اسلامی ممالک کے سربراہ تاریخ ساز مرحلے میں داخل ہوتی اسلامی سیاست کے حسین سنگم پر اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لا رہے ہیں ہیں
میں علیل ہوں بستر پر لیٹا ہوں مگر سرہانے تین بینڈ کا ریڈیو ہے اور ریڈیو پر براےراست نشریات سنائ جا رھی ھیں
اور اب فرمارواۓ سعودی عریبیہ شاہ فیصل السعود کا جہاز آ چکا ہے صدر پاکستان فضل الہی چوہدری اور وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو جہاز کی طرف رواں دواں ہیں ہیں شاہ فیصل آل سعود نے مصافحہ کیا گلے لگ کر معانقہ ھوا اور اب وہ سلامی کے چبوترے کی طرف تشریف لا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ پاک فوج کے چاک و چوبند دستے سلامی پیش کر رہے ھیں ۔۔۔۔۔ اور اب دستوں کا معائنہ کر رہے ہیں وزیر اعظم پاکستان ان کے ہمراہ ہیں اور اب گاڑیوں کی ایک طویل قطار میں اپنے عظیم مہمان کو ان کی قیام کیا کی طرف لے جانے کے لیے چل پڑے ہیں
یوگنڈا کے عیدی امین تشریف لائے ۔۔۔۔۔۔۔ سادات جہاز سے اترے ۔۔۔۔۔۔ ماریطانیہ کے مختار ددا تشریف لے آۓ ھیں ۔۔۔۔۔۔ شیخ زید بن سلطان النہیان جہاز سے باھر تشریف لا کر ھاتھ ہلا رہیے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اب لیبیا کے کرنل معمر قذافی تشریف لا چکے ھیں ۔۔۔۔ اور اب یاسرعرفات اپنے سر پر کالے ڈبوں والا رومال باندھے مجاہدوں کا لباس زیب تن کیے تشریف لا رہے ہیں
50 مسلم ممالک کے سربراہان اس کانفرنس میں شریک ھوےتھے اور خاص طور پر اس کانفرنس کے لیے ایک نغمہ بھی تیار کیا گیا تھا
ہم مصطفوی مصطفوی ہیں
چند سال بعد 1976 یا 1977کا زمانہ تھا نوجوان پاک لیبیا فرینڈشپ ۔۔۔۔۔ پاک چائنا فرینڈ شپ کی مثبت سرگرمیوں میں شریک ھوتے تھے اور بے شمار نوجوان یاسر عرفات کی طرح سر پر کالے ڈبوں والے رومال باندھ کر خود کو ” الفتح ” کا مجاہد سمجھتے تھے ۔۔۔۔ نوجوان یاسر عرفات اور فلسطین سے غیرمشروط محبت کے انمول جذبے میں بندھے ہوئے تھے اور یہ وہی دورہے جب ہم نے ۔۔۔موشے دایان ۔۔۔۔ کاپہلی بار نام سنا تھا اس کی ایک آنکھ پر چمڑے کی پٹی بندھی ہوتی تھی یہ اسراہیلی وزیر خارجہ تھا اور ھر نوجوان اس سے خار کھاتا تھا ۔۔۔ نفرت کرتے تھے اس سے ۔
تمام اسلامی ممالک کے سربراہ لاہور میں جمع ہو چکے تھے اخبارات کی سرخیاں بتا رھی تھیں کہ کوئ اسلامی بم بننے جارہا ھیے
اسلامی بم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زہن اس کا جواب تلاش کرتے ۔۔۔کہ کیا ھو گا ۔۔۔۔ کیسا ھو گا ۔۔۔۔۔ اور پھر پتہ چلا کہ
تمام عرب ممالک ایٹمی طاقت ھونے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کرنسی ایک ہونی چاہیے
ایک فوج ہونی چاہیے ایک بینک ہونا چاہیے وہ تمام دولت کا لین دین آپس میں کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر شیطان کے پیروکاروں کو اپنی سود کی کمائ کا خسارہ نظر آنے گا تو امریکیوں نے انہیں شہہ دی ۔۔۔۔۔اور متحد کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے شیطانی منصوبہ سازوں نے ایسے منصوبے بناۓ کہ وہ مسلمانوں کی ترقی کے خواہاں سب اذہان ایک ایک کر ختم کرنے کے در پے ھو گے اور پھر وہ سب انسان ختم کر دیے گۓ
فلسطین کے بارے میں میں سچ یہ ہے کہ چار ہزار سال پہلے یعنی دو ہزار قبل مسیح حضرت ابراہیم عراق کے شہر ” آر ” سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے حضرت ابراہیم نے اپنے ایک بیٹے اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں جب کہ دوسرے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا نام اسرائیل بھی تھا ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی اس سرزمین پر حضرت یعقوب علیہ اسلام ۔۔۔۔ حضرت سلیمان علیہ اسلام ۔۔۔۔ حضرت حضرت موسی علیہ اسلام ۔۔۔۔ خضرت یحی علیہ اسلام ۔۔۔۔خضرت یوسف علیہ اسلام ۔۔۔۔ خضرت عیسی علیہ اسلام اور بہت سے پیغمبر بھی اس سر زمین پر اترے اسی مناسبت سے یہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلاتی ہے
بیت المقدس سب کے لیے محترم مقدم ہے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے عیسائیوں کے لیے اس لیے محترم ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس شہر میں پیدا ہوئے تھے اسی طرح یہودیوں کے لئے بھی شہر محترم ہے انہوں نے 1967 میں یروشلم پر قبضہ کر لیا جو اب تک قائم ہے امریکہ کی مسند صدارت پر کوئی بھی براجمان ہو اس کی تمام تر ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ ہوتی ہیں
ظلم و بربریت تو فلسطین پر ہمیشہ سے شدید ھی رہا ھیے مگر اس دفعہ تو یہودیوں نے انتہا دی ھے ۔۔۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کا حوصلہ ” یاہو ” کے دماغ میں آ سمایا ۔۔۔۔ نہتے معصوم بچوں کو ۔۔۔ بن ماں باپ کے بلکتے ۔۔ روتے ۔۔۔ کرلاتے بچے دیکھ کر بھی ظالموں کا کلیجہ نہیں پسیجا اور آفرین ہے ہے ان بچوں پر کہ زخموں سے چور چور ہیں آنکھوں میں آنسو ہیں بریدہ لاشوں کے سرھانے ہیں مگر ہاتھ میں ایک پتھر بھی ہے ذرا غور سے دیکھیں تو سہی پتھروالے ہاتھ میں کتنا حوصلہ اور ان بچوں کی آنکھ کا عزم دیکھیے جیسے وہ اس پتھر سے ٹینک تباہ کر دے گا ۔۔۔۔ وہ جہازوں سے برسنے والے مزاہیلوں کو ناکارہ کر دے گا وہ سب کو اس پتھر سے تیس نہس کر دے گا
ہاں روتی پر عزم آنکھوں ۔۔۔۔ دکھی دلوں ۔۔۔۔ کٹی سر بریدہ لاشوں کے درمیاں سے ھی جوش اور جنوں ابھرے گا اور صہیونی قوتوں کو صفحہ ہستی سے منانے کا کام کرے گا کیونکہ ہمیشہ آگ دبی راکھ کے اندر سے بھڑکتی ھیے اور سب کچھ بھسم کر کے رکھ دیتی ھیے ۔