Newspulse - نیوز پلس
پاکستان، سیاست، کھیل، بزنس، تفریح، تعلیم، صحت، طرز زندگی ... کے بارے میں تازہ ترین خبریں

جے سالک کے دکھ

اس کا دکھ یہ ھیے کی حکومت اقلیتوں کے مزہبی تہواروں کے دنوں میں ان کی تنخواہ میں کوتاہی کیوں کرتی ھیے

گستاخیاں

خالد مجید

khalidmajeed925@gmail.com

 

خیال تو یہ تھا کہ نیشنل پریس کلب میں لگے فری میڈیکل ہومیوپیتھک کیمپ کے حوالے وھاں موجود ڈاکٹر سید فرقان کے بارے میں بات ھو اور پریس کلب کے ان ممبران کو بتاؤں کہ جس جس کو یا ان کی فیملی کے کسی فرد کو سائنس کی تکلیف ھیے وہ اپنا چیک ضرور کرا لیں اور ان کا شکریہ ادا کروں کہ جنھوں نے یہ سب انتظام کیا ھیے

مگر کیا کیا جاۓ جے سالک آج پھر نیشنل پریس کلب میں موجود تھے ۔ وہ ھماری میز کی طرف آ گۓ اور ھمیشہ کی طرح ایک نئے دکھ کے بوجھ تلے تھے بیٹھتے ھی بولے ۔۔۔۔ عارف علوی سے بات ھوئ ھیے ۔۔۔۔۔ صدر مملکت سے ۔۔۔۔ ھم نے تصدیق چاھی تو انھوں نے ہاں کہہ کر بات شروع کر دی ۔۔۔۔ صدر صاحب کو میں نے بتایا ھیے اسلام آباد میں دماغی مریضوں کا کوئ ہسپتال نہیں ھیے

پھر وزیراعظم سے بات کرنے کے لیے ان کے آفس فون کیا تو کسی خاتون نے بتایا کہ کی آج ان چھٹی ھیے تو جے سالک پھٹ گیا ۔۔۔۔۔ سیاست میں کوئ چھٹی نہیں ھوتی۔۔۔۔ میں نے پینتالیس سال سے کوئ چھٹ نہیں کی ۔۔۔۔ عمران خان کیوں چھٹی کرتا ھیے

۔۔۔۔۔ وہ میرے پاس ھی بیٹھا اور میں سوچ رھا تھا کہ ھو سکتا ھیے ان خاتون سمیت پی ٹی آئ کے دو سو ماہرین سمیت سوشل میڈیا کے یوتھے جانتے ھی نہ ھوں کہ جے سالک کون ھے ۔۔۔ کیونکہ میرے ھمراہ میری بیٹی جو نویں جماعت کی طالبہ ھیے اس نے میرے کان میں پوچھ لیا کہ ۔۔۔۔ انکل کون ھیں ۔۔۔

تو سنو میں بتا تا ھوں جے سالک کون ھیے

ارے یہ فخر ھیے پاکستان کا ۔۔۔۔۔ یہ پہچان ھیے پاکستان کی ۔۔۔۔۔ بغیر کسی انعام واکرام ۔۔۔ غرض اور لالچ کے ۔۔۔۔ بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب کے وہ انسانوں اور انسانیت سے محبت کرتا ھیے وہ جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی دیکھتا ھیے بھڑک اٹھتا ھیے نہیں معلوم کس مٹی کا بنا ھیے انیس سو نوے میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے وہ قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تو اس وقت کی حکومت نے دو کروڑ روپے میں اس کی آزاد نشست خریدنی چاہی تو اس درویش صفت انسان نے دو کروڑ نہیں لیا اور اپنی آزادی برقرار رکھی

پھر ایسا بھی ہوا کہ جب وہ وفاقی وزیر بن گیا تو اس نے اپنے تن پر خاکی لباس پہن لیا ،وزارت پھوں پھاں کی بجائے خاکساری اور وہ خاکی لباس اس کی پہچان بن گیا پھر اپنے منسٹر کالونی میں ملنے والے گھر کو یتیم خانے میں بدل دیا اور یتیم بچوں کی پرورش کرنے لگا

وفاقی وزیر کا حلف اٹھا لیا تو گوشت کھانا بند کر دیا اور کہا کہ بھوک سے بلکتے عوام کے وزیروں کو کو چرغے اور چاہینز زیب نہیں دیتا یہ سب بے غیرتی ہے اور ہم تو اس کے چشم دید گواہ ہیں ہیں اس کی وزارت کا زمانہ ہی ہماری دوستی کا زمانہ ہے اسلام آباد کے میلوڈی میں وزارت بہبود آبادی کا دفتر تھا اور قریب ھی چاہینہ چوک میں اکثر ھم بریانی کی سنگل سنگل پلیٹ کھایا کرتے تھے

وفاقی وزیر کا دروازہ بند نہیں ملتا تھا تھا ہمیشہ کھلا ر ہتا تھا

ایک ہی بیٹا ہے اور اس بیٹے کی شادی کے موقع پر کسی بھی وزیر صدر وزیراعظم کو نہیں بلایا بلکہ 70 یتیم بچوں کو بلایا اور قومی ترانے کی گونج میں بیٹے کی شادی کر دی

جے سالک کے والد بیمار تھے تھے اور وہ امریکہ کے ایک ہسپتال میں میں داخل تھے اور قریب المرگ تھے تو حکومت نے اسے وہاں کے سرکاری دورے کی دعوت دی کہ جاؤ او امریکا سے ہو تو اس نے امریکا کا ریٹرن ٹکٹ تمام سہولتیں اور آٹھ ہزار ڈالر کی رقم جو اسے مل رہی تھی مسترد کر دی اور بآواز بلند یہ کہا کہ میں خالی اور مقروض سرکاری خزانے پر بوجھ بن کر اپنے باپ کی عیادت کے لیے نہیں جا سکتا

یہاں یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا انیس سو پچانوے میں ایسا ہوا کہ کہ پارلیمنٹ کے معززین ممبران کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤسنگ سکیم کے تحت تقریبا پونے دو کروڑ کے پلاٹ 65 لاکھ میں تقسیم کیے جا رہے تھے اس موقع پر جے سالک نے ایک پریس کانفرنس بلا لی اور اعلان کر دیا کہ جب تک ہر شہری کو ذاتی چھت نصیب نہیں ہوگی وہ یہ سرکاری پلاٹ نہیں لے گا یہ 1995 کی بات ہے اور آج 2021 ہے آج بھی پاکستان میں اسکی کوئی زمین ھیے نہ کوئی مکان ھیے اور نہ ھی کوئی پلاٹ ھیے وہ کرائے پر رہتا ہے اور مجھے یاد ہے کہ ایک زمانے میں میلوڈی کے قریب ایک بہت بڑے ہوٹل کے سامنے والی گلیوں میں غالبا 36 نمبر گلی میں وہ دس نمبر میں گھر میں رہتا تھا اور نو نمبر گھر آغا امجد صاحب کی وساطت سے ایک بیٹھک بنا رکھی تھی جس میں علمی ،ادبی ، سیاسی اور قانونی نامور شخصیات آتی تھیں معروف قانون دان اقبال کوکب صاحب ھمارے مستقل ممبر تھے اس کمرے میں سردار لطیف کھوسہ صاحب بھی تشریف لاۓ تھے اور یہ ان دنوں کی بات ھیے جب وہ گورنر کے منصب پر فائز تھے ہم دو سال پڑوسی رہے ہیں اسی لیے ھمیں یہ بھی پتہ ھیے کہ بہت سے بے روزگار ناشتہ اور لنچ وہیں کیا کرتے تھے خدا اسکا دسترخوان کشادہ رکھے

جے سالک تورابورا کو تاراج کرنے والے مہذب کہلانے والوں کے خلاف احتجاج کرتا نظر آتا ھے تو کبھی کشمیر کی سسکتی بلکتی زندگی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی اور وہ بھارتی مظالم کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی آواز بن جاتا ھیے

وہ دو ہزار میل پیدل سفر کر کے بوسینا کے مسلمانوں سے یکجہتی کے لیے پہنچ جاتا ھیے تو کبھی چیچنیا کے دکھ میں واویلا مچاتا ھیے

جے سالک نے1979 میں میں کونسلر کا الیکشن جیتا پھر 1983کا بلدیاتی الیکشن جیتا اور پھر 1988,1990اور 1993 کا الیکشن جیت کر ایم این اے بنا جبکہ 26جنوری 1994کو وفاقی وزیر بنا اور اب زرا غور یہ بات سنو لوگو اور سمجھو کہ یہ کیا ھے وزارت کے پونے تین سال جو اعزازی اخبارات اس کے گھر آتے تھے وہ سب سھنبال کر رکھے جاتے رہیے جب وزارت ختم ھوئ تو یہ اخبار اسنے ردی والے کو بیچ دیے جو چار من اور سات کلو بنے تھے اس نے یہ رقم وزارت کو جمع کرائی اور اسکی رسید بھی حاصل کر لی کہ ضمیر پر بوجھ نہ رہیے اور نیب سے بھی محفوظ رھیے

لوگو جے سالک اسمبلی خالی ھاتھوں کے ساتھ گیا تھا اور شفاف ھاتھوں سے واپس آیا تھا ۔۔۔ اس پر نہ اقربا پروری کا الزام تھا اور نہ ھی کسی قرضہ معافی کے الزام کا داغ اس پر تھا نہ کوئ پرمٹ نہ کوئ بینک بیلنس ، نہ کوئ گھر ، نہ کسی رشوت کا سکینڈل !

2005 کے زلزلے کے دنوں میں وہ سر پر خاک ڈالنے بیٹھ گیا وہ کبھی قبرستان کو مسکن بناکر اپنے جسم پر خار دار تاریں لپیٹ لیتا ھیے تو کبھی خود کو صلیب پر لٹکا لیتا ھیے نے سالک احتجاج کا نام ہے وہ مظلوم کی آواز ھیے اور یہ اعزاز بھی اس کے حصے میں آیا ھے کہ وزیراعظم بینظیر بھٹو نے 10 جنوری 1996کو نوبل پیس پرائز کمیٹی کو اسکی نامزدگی کا خط بھی لکھا تھا

جی ہاں یہ جے سالک ھیے جس کا نیا دکھ یہ ھیے کہ اسلام آباد کے جی سیون میں ایک پاگل کو زنجیر پہنا رکھی ھےاس کا علاج یہاں کیوں نہیں ھو سکتا

اس کا دکھ یہ بھی ھیے کہ سینٹری ورکرز کی تنخواہوں کا نظام کوں خراب ھیے

اس کو یہ دکھ بھی ھیے کہ اخبار مالکان وقت پر تنخواہیں کیوں نہیں دے رھے

اس کا دکھ یہ بھی ھے مسلمانوں کا حج اور عمرہ حکومت نے اتنا مہنگا کیوں کر دیا ھیے

اس کا دکھ یہ ھیے کی حکومت اقلیتوں کے مزہبی تہواروں کے دنوں میں ان کی تنخواہ میں کوتاہی کیوں کرتی ھیے

اس کے نزدیک اقلیت صرف غیر مسلم نہیں بلکہ دنیا بھر کے محکوم و محروم عوام ہیں وہ کسی مذہب ،مسلک ،رنگ و نسل اور وطن سے ھوں وہ اقلیت ھیں

وہ بڑے دکھ سے کہتا ھیے کہ کاش میرے احتیار میں ھوتا تو میں کبھی کسی انسان کو انسان کے ہاتھوں لٹنے نہ دیتا اس نے بڑے دکھ سے کہا کاش میں درماندگی ، مظلومیت ،بے بسی اور مفلوک الحالی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا ھوتا

پھر ھم نے کچی بستی کے اس پاگل زنجیر میں جکڑے نوجوان کو بھی دیکھا تو خیال آیا تبدیلی سرکار سمیت ان کے دوسو ماہرین کو کسی کے دکھوں سے کیا غرض

اور جے سالک تم تو ٹھرے سدا کے دکھی ۔۔۔۔ اور یہ دکھ تو انسانیت کے دکھ ھیں اور وہ ٹھرے سوشل میڈیا والے ۔۔۔۔ جہاں نہ جزبہ نہ اور جزبات ھیںں۔۔۔ وہاں دکھ درد کہاں نظر آتے ھیں،

ان سے خیر کی توقع نہ رکھنا دوست ۔۔۔۔۔۔ دیکھو ھماری سر پے عید ھیے اور یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹا ،چینی اور گھی مہنگا کر دیا ھیے اور لگے ہاتھوں پیٹرول بھی مہنگا کر دیا ھیے اور یہ بھی دیکھو گرمی کے اس حبس زدہ موسم میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ شروع کر رکھی ھیے۔ اور دو سو ماہرین کی فوج جس کا بڑا چرچا تھا وہ سب جھوٹ تھا ۔۔۔۔ ڈرامے بازی تھی ۔۔۔ آنکھوں میں دھول جھونکنے کا عمل جاری ھیے

لیکن جے سالک ھم مایوس نہیں ھیں کیونکہ مظلوموں کی آہ و بکا جاری ھیے مگر یہ بھی تو سچ ھیے کہ ظالم کی رسی دراز ھوتی ھے

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More