جو ریاست اور عوام پر حملہ آور ہوگا اسے بھرپور جواب ملے گا۔ انوارالحق کاکڑ
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ جو ریاست اور عوام پر حملہ آور ہوگا اسے بھرپور جواب ملے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ملک میں ریاست اور عام شہریوں کے خلاف جنگ جبکہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو لوگوں کو بے دریغ قتل کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ریاست کسی کو بھی سیاسی، نسلی اور مذہبی اختلافات کی بنیاد پر تشدد اور لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دے گی، امن و امان کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز بیکن ہائوس نیشنل یونیورسٹی لاہور کے طلباء وطالبات سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔یونیورسٹی فکلیٹی ممبران اور طلباء طالبات کی کثیر تعداد اس موقع پر موجود تھی۔نگران وزیر اعظم نے طلباء و طالبات کے سوالوں کے مدلل جواب بھی دئیے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ امن و امان برقرار رکھنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسے عناصر ریاست پاکستان پر کبھی غالب نہیں آئیں گے۔ وزیر اعظم نے ایک سوال کے جواب میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جو ریاست اور عوام پر حملہ آور ہوگا اسے بھرپور جواب ملے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ملک میں ریاست اور عام شہریوں کے خلاف جنگ جبکہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو لوگوں کو بے دریغ قتل کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان دہشتگردوں کا چیلنج قبول کر لیا ہے اور پوری طاقت سے ان کو جواب دیا جائے گا۔
معیشت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ٹیکس محصولات عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہیں، ملکی آمدن اور خرچ میں فرق بہت زیادہ ہے، ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ نہایت ضروری ہے، ملک میں 10 ہزار ارب روپے کی ٹیکس چوری ہو رہی ہے، ٹیکس کی شرح میں کمی بڑا چیلنج ہے، تعلیم صحت اور دیگر سہولتوں کے لیے ٹیکسیشن کا مربوط نظام ناگزیر ہے، پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کی شرح 9 فیصد ہے، نگران حکومت کے دور میں ایف بی آر نے ٹیکس ہدف حاصل کیا، ہمیں اپنے گورننس کے نظام میں بہتری لانی ہے۔انہوں نے کہا کہ معیشت کی مضبوطی کے لیے سب سے پہلے اور سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ٹیکس کا ایک مضبوط نظام وضع کیا جائے۔
انہوں نے بیوروکریسی کے ڈھانچے اور گورننس کے نظام میں بہتری کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ غزہ سے متعلق ایک سوال کے بارے میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے، سال نو کی تقریبات نہ منانے کا مقصد دنیا کو فلسطینیوں کے مظالم سے آگاہ کرنا تھا، فلسطین میں جاری خونریزی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، پاکستان نے فلسطین کے مسئلے پر او آئی سی سمیت تمام عالمی فورم پر بات کی اور یورپی، امریکہ اور دیگر ممالک کے سفارت کاروں کو یاد دلایا کہ اگر اسرائیل کی جانب سے اس طرح کا احمقانہ رویہ جاری رہا تو فلسطین میں ظلم و تشدد سے ڈیڑھ ارب مسلمان انتہا پسندی کا شکار ہو جائیں گے، ہمارا پہلا مطالبہ جنونی جنگ کا خاتمہ ہے ،پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی اس مسئلے پر امریکہ سے بات کی ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں اب تک تقریبا 9000 بچے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا ایک آزاد فلسطین کی بات کر رہی ہے جس کی سرحدیں جون 1967 سے پہلے کی ہیں اور اس کا دارالحکومت القدس الشریف ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان فلسطینی موقف پر انکے ساتھ حقیقی طور پر پرعزم ہے اور اس کا پیغام پہنچانے کے لیے تمام سفارتی حلقوں کو بروئے کار لا رہا ہے۔ اسلام آباد میں بلوچ خاندانوں کے احتجاج کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں آئین اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے احتجاج اور مظاہرے کرنا بنیادی حق ہے لیکن جب ان اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی تو پھر قانون حرکت میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ مظاہرین کے خلاف واٹر کینن کے استعمال کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا حالانکہ وہ یورپی یونین کے ممالک میں مظاہرین کے خلاف اس کے استعمال کے تقریبا 200 سے زائدواقعات کا حوالہ دے سکتے ہیں۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے اوپرپتھرائو پر جوابی کارروائی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام گرفتار افراد کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ خواتین نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاج کر رہی تھیں جو ان کا حق تھا،حکومت قانون نافذ کراتی ہے چاہے کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ وزیر اعظم نے ایک طالب علم کے ریمارکس سے اتفاق کیا کہ ملک میں عدالتی نظام میں بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے رویے میں تبدیلی اور سب پر قوانین کے یکساں اطلاق پر بھی زور دیا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ نوجوانوں سے بات چیت کرنے پر ہمیشہ خوشی ہوتی ہے، نوجوان ملک کا مستقبل ہیں، نوجوانوں کو قومی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے جبکہ نوجوانوں کو دنیا میں موجود مواقع سے استفادہ کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک سے ہونہار بچوں کا جانا برین ڈرین نہیں بلکہ وہ ہمارا اثاثہ ہیں، ہمارے ہونہاروں کا بیرون ملک جانا ہماری کامیابی ہے،ہمیں انسانی وسائل کی ترقی پر بھرپور توجہ دینی ہے کیونکہ ہنر مند انسانی وسائل ملک میں زر مبادلہ کا ذریعہ بنتے ہیں۔انہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ میڈیکل ایجوکیشن میں اچھے اصول و ضوابط کا فقدان ہے، ذہنی صحت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے نگران حکومت قانون سازی نہیں کر سکتی لیکن وہ آنے والی حکومت کے لیے صرف اپنی سفارشات کا مسودہ تیار کر سکتی ہے۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ارتقائی عمل میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیر جمہوری قوتیں اکثر جمہوری نظام کی عدم کارکردگی کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جمہوریت کے اصولوں کو ان لوگوں نے پامال کیا جنہوں نے انہیں اپنے فائدے میں نہیں سمجھا، انہوں نے مزید کہا کہ بعض مسائل پر مکمل بحث کی ضرورت ہے اور نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سچے بنیں اور ملکی مسائل کے حقیقی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان میں غیر ریاستی عناصر اور دہشت گرد لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کو تشدد کا جواب دینے کا پورا حق ہے۔
بشکریہ: اے پی پی