بیجنگ (نیوزپلس) چین نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک بار پھر دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تائیوان کی طرف سے آزادی حاصل کرنے کی کوششوں کا مطلب کھلی جنگ تصور کیا جائے گا۔
گلوبل ٹائمز کے مطابق چین کی طرف سے یہ دھمکی تائیوان کے قریب اپنی فوجی سرگرمیوں اور جنگی جہازوں پروازوں میں تیزی لانے کے چند دن بعد دی گئی ہے۔
یہ پیش رفت امریکہ میں جو بائیڈن کے صدارت سنبھالنے کے بعد تائیوان کی حمایت جاری رکھنے اور ایشیا میں امریکی پالیسی کو واضح کرنے کے بعد ہوئی ہے۔
امریکہ کی طرف سے چین کی اس تازہ ترین دھمکی کو ‘بدقسمتی’ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ کشیدگی کو تصادم کی طرف نہیں بڑھنا چاہیے۔
واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے لیکن تائیوان ایک خود مختار ریاست ہونے کا دعوایدار ہے۔
چین کی وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان وہو کین نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ہم بڑی سنجیدگی سے تائیوان میں آزادی کی خواہش رکھنے والی قوتوں پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جو آگ سے کھیلتے ہیں جل جاتے ہیں اور تائیوان کی آزادی کا مطلب جنگ ہو گا۔
تائیوان کے قریب فوجی سرگرمیوں کا دفاع کرتے ہوئے وزارتِ دفاع کے ترجمان نے کہا یہ اقدامات خطے کی سکیورٹی صورت حال کے پیش نظر ضروری تھے تاکہ ملکی سلامتی اور خودمختاری کو یقینی بنایا جائے۔
چین میں سنہ 1949 کی خانہ جنگی کے بعد سے چین اور تائیوان میں علیحدہ علیحدہ حکومتیں قائم ہیں۔ چین نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ بین الاقومی سطح پر تائیوان کے کردار کو کم سے کم رکھا جائے اور دونوں حکومتیں بحرالکاہل میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی سعی میں رہتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں دونوں حکومتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ چین نے اس جزیرے پر اپنی خودمختاری قائم کرنے کے لیے کبھی بھی طاقت کے استعمال کے امکان کو رد نہیں کیا ہے۔
تائیوان کو دنیا کے چند ہی ملک تسلیم کرتے ہیں لیکن یہاں جمہوری طریقے سے قائم حکومت کے بہت سے ملکوں سے گہری تجارتی اور غیررسمی تعلقات قائم ہیں۔
بہت سے دوسرے ملکوں کی طرح امریکہ کے بھی تائیوان سے باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن ایک قانون کے تحت یہ تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی امداد مہیا کر سکتا ہے۔
چین کی طرف سے جنگ کی اس دھمکی پر جمعرات کی شام کو امریکہ کی طرف سے رد عمل سامنے آیا۔
امریکی وزارتِ دفاع پینٹاگوں کے پریس سیکیرٹری جان کربی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دھمکی بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔’ جو بائیڈن کے حکومت میں آنے کے بعد یہ نئی امریکی انتظامیہ کی طرف سے چین اور تائیوان کے بارے میں پہلا بیان ہے۔
جان کربی نے مزید کہا کہ امریکی وزارتِ دفاع سمجھتی ہے کہ تائیوان سے متعلق پائی جانے والی کشیدگی کو تصادم تک لے جانے کی کوئی وجہ ہے۔
چین اور امریکہ کے بگڑتے ہوئے تعلقات کے مد نظر توقع ہے کہ امریکہ میں جو بائیڈن کی انتظامیہ چین پر انسانی حقوق، تجارتی جنگ، ہانگ کانگ اور تائیوان جیسے تنازعات پر دباؤ برقرار رکھے گی۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کبھی بھی ایک توسیع پسند ملک نہیں رہا اور خاص طور پر اپنی سرحدوں سے دور اس نے کوئی فوجی مہم جوئی نہیں کی ہے،تاہم امریکہ اور یورپ کے کچھ ممالک اور بھارت چین کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کرتے آ رہے ہیں کہ تائیوان کا معاملہ مختلف ہے اور وہ خانہ جنگی کے نتیجے میں چین سے علیحدہ ہو کر وجود میں آیا تھا۔
شی جن پنگ کی حکومت میں چین متعدد مرتبہ اس بات کا اعادہ کر چکا ہے کہ تائیوان کی طرف سے آزادی حاصل کرنے کی کسی بھی کوشش کو روکنے کے لیے وہ طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا۔
جنگ کی دھمکی فوجی مداخلت سے مختلف ہے۔ یہ ڈھکے چھپے الفاظ میں نہیں بلکہ بہت کھلے بندوں اور خوفناک انداز میں ہے۔ فوجی مداخلت تو کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے اور ضروری نہیں کہ اس کا مطلب فریقین اور ان کے اتحادیوں کے درمیان کھلی جنگ ہی ہو۔
لیکن تائیوان کی حیثیت چین کے لیے ایک آخری حد ہے کیونکہ وہ اسے اپنا حصہ تصور کرتا ہے اور ہانگ کانگ کی طرح ایک اندورنی معاملہ۔