تحریر ؛ سارہ افضل
چینی صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں دنیا کی مشترکہ سلامتی کے فروغ کی خاطر ،چین کی جانب سے عالمی سیکورٹی انیشیٹو پیش کیا جس کے مطابق ہمیں مشترکہ، جامع، تعاون اور استحکام پر مبنی سلامتی کے تصور پر قائم رہنا چاہیئے اور مشترکہ طور پر عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا چاہیئے
بوآوایشیائی فورم بیس سےبائیس اپریل تک بیجنگ میں منعقد ہوا۔ چینکےصدرمملکت شیجن پھنگ نےاس فورم کی افتتاحی تقریب سےخطاب کیا۔ رواں سال اجلاس کا موضوع” وبا اوردنیا : مشترکہ طورپرعالمی ترقی ” ہے ،جو وبا پرجلد ازجلد قابو پانے،اقتصادی ترقی کےفروغ،یکجہتی، تعاون اورعالمی گورننس کوبہتربنانے کی مشترکہ خواہش کا عکاس ہے ۔صدر شی جن پھنگ کا بو آو ایشین فورم سے کیا جانے والا خطاب بے حد اہمیت کا حامل ہے اور یہ بجا طور پر ایک ایک مدبر اور دور اندیش رہنما کا خطاب ہے جو نہ صرف آج کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے بلکہ ان کی نظر آنے والے وقت پر بھی ہے اور انہوں نے آج کی صورتِ حال سے آنے والے کل کے لیے بہتری کشید کرنے کے اصول تمام دنیا کے ساتھ بانٹے ہیں۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں دنیا کی مشترکہ سلامتی کے فروغ کی خاطر ،چین کی جانب سے عالمی سیکورٹی انیشیٹو پیش کیا جس کے مطابق ہمیں مشترکہ، جامع، تعاون اور استحکام پر مبنی سلامتی کے تصور پر قائم رہنا چاہیئے اور مشترکہ طور پر عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا چاہیئے، مختلف ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام، دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور مختلف ممالک کے عوام کی طرف سے ترقیاتی راہ کے آزادانہ انتخاب اور سماجی نظام کا احترام کرنا چاہیئے، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے، سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنا چاہیئے، یکطرفہ پسندی کی مخالفت کی جانی چاہیے، گروہی سیاست اور محاذآرائی سے اجتناب کرنا چاہیئے،تمام ممالک کے سکیورٹی خدشات و تحفظات کواہمیت دینی چاہیئے، سکیورٹی کے ناقابل تقسیم ہونے کے اصول کو برقرار رکھنا چاہیئے، ایک متوازن، موثر اور پائیدار سکیورٹی ڈھانچہ بنانا چاہیئے اور دوسرے ممالک کے عدم تحفظ پر اپنی سلامتی کی بنیاد رکھنے کے عمل کی مخالفت کی جانی چاہیے،بات چیت اور مشاورت کے ذریعے مختلف ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کے پرامن حل پر عمل کرنا چاہیئے، ان تمام کوششوں کی حمایت کرنی چاہیئے جو بحرانوں کے پرامن حل کے لیے سازگار ہوں، دوہرا معیار نہیں اپنان چاہیے،یکطرفہ پابندیوں اور "لمبے ہاتھ کے دائرہ اختیار” کے غلط استعمال کی مخالفت کرنی چاہیئے؛ روایتی اور غیر روایتی شعبوں میں سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے مجموعی منصوبہ بندی پر عمل کرنا چاہیئے نیز علاقائی تنازعات اور دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی، سائبر سکیورٹی، اور بائیو سکیورٹی سمیت عالمی مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنا چاہیئے۔
شی جن پھنگ عالمی اتحاد کی اہمیت کو ہر فورم پر اجاگر کرتے ہیں یہاں بھی ایک مرتبہ پھر انہوں نے عالمی اتحاد کی اہمیت کے حوالے سے کہا کہ عالمی برادری ایک پیچیدہ ارتقائی اتحاد بن چکی ہے جو کہ ایک مشین کی مانند ہے،کسی بھی ایک پرزے کی خرابی یا کمی سے پوری مشین کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ صدی بڑی تبدیلیوں کی صدی ہے تاہم اس حوالے سے بھی شی جن پھنگ کا نکتہ نظر بے حد مثبت ہے اور اس کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ انسانی تاریخ نےہمیں یہ سکھایا ہےکہ جتنی بڑی مشکل ہو،اتنا ہی زیادہ پراعتمادہوناچاہیے ۔اختلافات خطرناک نہیں ہوتےاوراختلافات ہی انسانی معاشرےکوآگےبڑھانےکی ایک قوت ہیں تاہم اختلافات کوجنگ کی صورت اختیارنہیں کرنی چاہیے ۔مختلف ممالک کومل کرچیلنجزکامقابلہ کرناچاہیئےاورمستقبل کےلیےتعاون کرناچاہیئے۔کیونکہ تمام ممالک ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ۔ آج کےدورمیں سردجنگ کےفرسودہ نظریات دنیا کےامن کونقصان پہنچائیں گے،بالادستی اورجبرکی سیاست عالمی امن کوتباہ کرےگی اورگروہی محاذآرائی،سکیورٹی چیلنجزکومزید سنگین بنائےگی۔اس لیے ہمیں جامع مشاورت،تعمیری شراکت اور مشترکہ مفادات پر مبنی عالمی گورننس کے تصور پر عمل کرنا چاہیئے،انسانیت کی مشترکہ اقدار کو بروئے کار لانا چاہیئے اور مختلف تہذیبوں کے درمیان تبادلوں کو فروغ دینا چاہیئے۔ کثیرالجہتی پر ثابت قدم رہنا چاہیئے ،اقوام متحدہ کی مرکز یت پر مبنی بین الاقوامی نظام اور قوانین کی بنیاد پر بین الاقوامی نظم و نسق کا بھرپور تحفظ کیا جانا چاہیئے۔بڑے ممالک کو مساوات ،تعاون ، دیانت داری اور قانونی انتظام کے لیے رہنما اوربہترین مثال بننا چاہیئے ۔
ایشیائی ممالک کو شی جن پھنگ ایک خاندان کی مانند مانتے ہیں۔ اس خطے کے چھوٹے بڑے تمام ممالک کی ترقی ایک دوسرے سے مربوط ہے ۔ اپنے خطاب میں ان کاکہنا تھا کہ ایشیائی ممالک کے عوام امن اور ترقی کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گزشتہ عشروں میں ایشیائی ممالک میں مجموعی طور پر استحکام رہا اور اقتصادی ترقی کی رفتار مسلسل تیز ہو رہی جو ایک "کرشمہ”بن چکا ہے۔انہوں نےاس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ایشیا کو دنیا میں امن و امان،ترقی اور تعاون کا ایک اہم علاقہ بنانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔چینی صدر نےبے حد واضح الفاظ میں کہا کہ اس خطے میں امن و استحکام آسمان سے نہیں ٹپکا اور نہ ہی یہ کسی ملک نے خیرات میں دیا ہے بلکہ یہ خطے کے ممالک کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ آج، ایشیا کی طرف سے شروع کردہ پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصول اور "بانڈونگ سپرٹ” کی اور بھی زیادہ حقیقی اور عملی اہمیت ہے۔ ہمیں باہمی احترام، مساوات اور باہمی فوائد اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کو برقرار رکھنا چاہیے، اچھی ہمسائیگی اور دوستی کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے اور اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہیے۔بات چیت اور تعاون کے ذریعے زیرو سم گیمز کو تبدیل کرنا،امتیاز اور پابندیوں کو کھلے پن اور شراکت داری سے تبدیل کرنا،اناپرستی کو تبادلے اور باہمی سیکھ سے بدلنا،یہ سب وہ ذہنی وسعت اور رواداری ہے جو ایشیا میں ہونی چاہیے۔ خطے کے اندر اور باہر تمام ممالک خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے، طاقتور ہوں یا کمزور، ان سب کو چاہیے کہ وہ افراتفری پیدا کیے بغیر ایشیا کی خوبصورتی میں اضافہ کریں۔ ان سب کو پرامن ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے، باہمی استفادے پر مبنی تعاون کے لیے کوشش کر نی چاہیئے اور ایک متحد اور ترقی پسند ایشیائی خاندان تشکیل دینا چاہیے۔