پاکستان کی گزشتہ 73 برس کی تاریخ میں کچھ ایسے حادثات اور سانحات ہوئے ہیں جہنیں بھولنا چاہیں بھی تو نہیں بھول سکتے، ان حادثات و سانحات میں ایک افسوس ناک سانحہ آج سے پندرہ برس قبل 8 اکتوبر 2005ء کو پیش آیا جسے یاد کرکے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
بروز ہفتہ ماہ رمضان کا تیسرا دن تھا، ملک بھر کی طرح ملک کے بالائی علاقوں صوبہ خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیرکے دور دراز دلکش پہاڑوں پر واقع آبادیاں جن میں بالا کوٹ، کاغان، بٹگرام، مانسہرہ، شانگلہ، گڑھی حبیب اللّٰہ٫ راولا کوٹ، مظفرآباد کے گردو نواح میں زندگی معمول کے مطابق شروع تھی۔
صوبہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور آزادکشمیر میں زمین لرزنے لگی، معلوم ہوا زلزلہ ہے، زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر7 اعشاریہ 6 ریکارڈ کی گئی جس کے ڈیڑھ سے دو منٹ تک شدید جھٹکے محسوس کیے گئے تاہم اس کا مجموعی دورانیہ 6 منٹ آٹھ سیکنڈ تھا، زلزلے کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلو میٹر دور تک اور ہزارہ ڈویژن تھا۔
جھٹکے جب رکے تو قدرتی آفت قیامت ڈھا چکی تھی۔ صوبہ خیبر پختون خوا، آزاد کشمیر اور پنجاب سے بری خبریں آنا شروع ہوگئیں، دارلخلافہ اسلام آباد میں ان جھٹکوں نے دس منزلہ رہائشی عمارت مارگلہ ٹاور کو زمین بوس کردیا جس میں وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔ مارگلہ ٹاور کے دو بلاک گرے جس سے 120 اپارٹمنٹ تباہ ہونے سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔
زلزلے نے پڑوس میں افغانستان، بھارت اور مقبوضہ کشمیر کو بھی متاثر کی جہاں 450 افراد انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔
لیکن آج زلزلے سے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی صوبہ خیبر پختون خوا اور آزاد کشمیر میں ہوئی، صوبہ خیبر پختون خواہ کے پانچ اضلاع، ایبٹ آباد، مانسہرہ، شانگلہ، کوہستان اور بٹ گرام جبکہ آزاد کشمیر کےاضلاع مظفر آباد، باغ، راولا کوٹ، وادی نیلم،جہلم سمیت اطراف کے کئی علاقے مکمل تباہ ہوگئے۔
ان علاقوں میں کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مِٹ گئے، سیکڑوں عمارتیں تباہ ہوئیں جس میں ہزاروں افراد دب گئے، یہ بہت بڑا سانحہ تھا جس سے پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔
اطلاعات ملتے ہیں سرکاری سطح پر امدادی کام کا آغاز کردیا گیا تھا۔ فوری طورپر پانچ ارب روپے کی امدادی پیکج منظور کرتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا گیا تھا جبکہ سابق صدر پرویز مشرف نے سنگین صورتحال دیکھتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مدد کی اپیل کی ۔
ملکی اور غیرملکی میڈیا نے اس واقعہ کو نمایاں جگہ دی جس کے بعدملک بھر کے فلاحی ادارے مدد کے لیے سرگرم ہوگئے، ملک کی تمام سیاسی مذہبی جماعتیں اور قومی سانحے پر متحد ہو کر امدادی کام میں جت گئی تھیں۔ اس موقع پر ملک بھر کی عوام نے ہرطریقے سے اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کی بھرپور کوششیں کیں، عالمی برادری نے بھی اس موقع پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مالی امداد کے ساتھ بحالی میں بھی بھرپور مدد فراہم کی۔
وہیں قیامت خیز زلزلےسے 73ہزار افرادلقمہ اجل بنے جس میں 20 ہزار بچے شامل تھے۔ ایک لاکھ پچاس ہزار شدید زخمی ہوئے۔ 220000 بچے زلزلے سے براہ راست متاثر جبکہ 330000 افراد بے گھر ہوئے۔
مجموعی طور پر28000 اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ زلزلے کی زد میں آیا جس نے 400 گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ متاثرہ علاقوں میں 16ہزار اسکول اور 80 فیصد صحت کے مراکز مکمل طور پر تباہ ہوئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق مظفر آباد تباہ جس میں 35 ہزار آٹھ سو تین افراد جاں بحق، 21ہزار 8 سو 66 افراد زخمی اور ایک ہزار 500 زخمی ہوئے۔ مظفر آباد میں ایک لاکھ 14 ہزار 410 مکانات تباہ ہوئے۔ ضلع باغ میں 19ہزار ایک سو 29 افراد جاں بحق 7 ہزار 4 سو اکیس افراد زخمی ہوئے، ضلع جہلم میں 407 افراد جاں بحق ایک ہزار پچیس زخمی، پلندری راولاکوٹ میں چار افراد جاں بحق ایک ہزار آٹھ سو زخمی، میر پور میں چھ جانیں ضائع ہوئیں۔
آزاد کشمیر کے چار اضلاع میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 92 ہزار702 مکان تباہ ہوئے تھے، سرکاری اداروں میں زیادہ نقصان اسکول کالج اور یونیورسٹی کا ہوا تھا۔
ایک برس بعد صوبائی ریلیف کمیشن کے مطابق زلزلے میں مجموعی طور پر خیبرپختون خوا میں 22708 افراد جاں بحق ہوئے جس میں بچے جوان نوجوان بزرگ مرد و خواتین شامل تھے جبکہ یہاں زخمیوں کی تعداد 40576 ریکارڈ کی گئی۔
صوبے کے سات اضلاع میں مجموعی طور پر 3لاکھ 28ہزار 416 مکانات تباہ ہوئے، کسی نے خوب کہا ہے کہ وقت کی سب بڑی خوبی اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے سو وہ وقت بھی گزر گیا لیکن اس سانحہ میں بچھڑے لوگ آج بھی ہم وطنوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔